نانی اماں کی زبانی
شازیہ عندلیب
حصہ دوم
کچھ روز بعد پھر ماں جی کی سب سہیلیوں کی ٹولی دریا کی جانب اپنے اپنے گھڑے صراحیاں اور گاگریں لے کر چل پڑیں۔حسب معمول پہلے دریا میں ہم لوگ تیرنے لگیں۔کپڑے اور زیور درختوں کے جھنڈ میں رکھ دیے۔دو تین روز آرام سے گزر گئے کوئی چیز چوری نہ ہوئی تو سب اطمینان سے تیراکی کے بعد اپنی اپنی صراحیوں میں دریا کا میٹھا صاف اور شفاف پانی بھر کرگھر کی راہ لی۔ایک روز جب گرمی خوب پڑ رہی تھی۔آسمان پر سورج روشن تھا۔سب بچے اور عورتیں دریا کی لہروں سے کھیلنے اور تیرنے میں مصروف تھے۔ میں دریا کے کنارے ریت سے گھر بنا رہی تھی سب عورتوں کے کپڑے اور زیور درختوں کے جھنڈ میں مخصوص جگہ پر رکھے تھے۔ مجھے میری ماں جی اور انکی سہیلیوں نے کہا تھا کہ کپڑوں اور زیورات کا خیال رکھنا اگر اس طرف کوئی آئے تو ہمیں آواز دے کربلا لینا۔سر پر سورج چمک رہا تھا اچانک مجھے درختوں کے جھنڈ میں ایک سایہ اور ساتھ ہی سر سراہٹ کی آواز سنائی دی۔میں نے جو منظر دیکھا وہ دیکھ کرحیران رہ گئی۔میں نے خود چور کو سونے کی زنجیر اٹھا کر لے جاتے دیکھا مگر میں حیرت اور خوف کے مارے نہ تو اسے روک سکی اور نہ ہی ماں جی کو آواز دے سکی ۔میری زبان خوف سے گنگ ہو گئی۔جب میرے ہواس بحال ہوئے میں بھاگی ہوئی دریا کے ساحل کی جانب لپکی اور اپنی ماں جی کو آوازیں دینی شروع
کر دیں ساتھ ہی شور مچاتی جاتی ماں جی چور چور چور۔۔۔میری آواز سن کر ساری عورتیں دریا سے باہر نکل آئیں اور درختوں کے جھنڈ کی جانب بھاگیں۔انہوں نے اپنے کپڑے چیک کیے تو اس میں سے خالہ صغریٰ کی سونے کی زنجیر غائب تھی۔وہ یہ دیکھ کر جلدی سے میری طرف لپکی اور پوچھنے لگی کہ چور کون تھا؟ کس طرف سے آیا تھا؟ اس نے کس رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے۔چور کالا تھا یا چٹا؟ اس نے دھوتی پہن رکھی تھی یا شلوار؟ کیا اسکی مونچھیں بڑی تھیں سلطانہ ڈاکو جیسی یا پھر کسی چرسی یا بھنگی جیسی شکل تھی۔قد لمبا تھا یا ناٹا۔اب ساری ماسیوں اور خالاؤں نے مجھ سے تھانیدار کی طرح پوچھ گچھ شروع کر دی۔میں اتنے سارے سوال سن کر پریشان ہو گئی ۔کس کا جواب دوں کس کا جواب نہ دوں؟ اتنے میں ماں جی نے آگے بڑھ کر مجھے سینے سے لگایا اور اپنی شفیق آغوش میں بھر کر کہا۔میری بچی کو پریشان نہ کرو۔دیکھتی نہیں وہ کتنا ڈری ہوئی ہے۔بیچاری کا ڈر کے مارے سانس لینا مشکل ہو رہا ہے۔انہوں نے میرے سر پہ ہاتھ پھیر کر پیشانی کا بوسہ لیا۔پھر ایک دوسری عورت نے بھی انکا ساتھ دیتے ہوئے کہا ہاں بیچاری کا رنگ ڈر کے مارے لال سرخ ہو گیا ہے۔پھر خالہ زینا نے مجھ سے پچکارتے ہوئے پوچھابتا سوہنی پتر چور کا رنگ کیا تھا۔میں نے ڈرتے ڈرے بتایا کالا۔۔۔یہ سن کر سب میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں کوئی کہتی وہ ضرور کالو کانا ہو گا دوسری کہنے لگی نئیں وہ تو دوسرے پنڈ گیا ہوا ہے وہ نہیں ہو سکتا یہ تو مجھے کلو کامے کی حرکت لگتی ہے۔پچھلی بار کسی کی شادی پہ اس نے گلی کی صفائی کے بعد بہت کچھ چرا لیا تھا۔چنانچہ گاؤں کے سارے کالے رنگ کے افراد کے پچھلے کارناموں اور وارداتوں کا جائزہ لیا جانے لگا۔
ماں جی نے اس دوران مجھے گاگر کا ٹھنڈا تازہ پانی پینے کو دیا اور ساتھ والی جھاڑی سے تازہ ٹوکن بیر توڑ کر کھلائے تو میرے حواس کچھ بحال ہوئے۔خالہ نو راں نے بڑے دلار سے مجھ سے پوچھا پتر اسکے کپڑوں کا کیا رنگ تھا۔کالا میں نے بیر کھاتے کھاتے جواب دیا۔اب پھر ساری خالاؤں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ہیں کالو کے کپڑے بھی کالے وہ بھی اس گرمی میں۔پھر اچانک ایک خالہ زور سے بولی ایک بات عجیب ہے کہ یہاں اتنا زیور تھا پر چور صرف سونے کی زنجیری ہی چرا کر لے گیا ہے۔اس نے اپنی ووہٹی کو دینی ہو گی تحفہ میں خالہ گلو نے لقمہ لگایا تو سب ہنسنے لگ گئیں۔دھوپ بہت تیز تھی اتنے میں دریا کی جانب سے ٹھنڈی ہوا چلی اور فضاء میں خنکی پھیل گئی۔ابھی سب عورتیں چور کے بارے میں خیال آرائیاں کر رہی رہیں تھیں کہ آسمان کی بلندیوں سے ایک بڑی عقاب نماء چیل کی گونجیلی آواز سنائی دی۔۔۔