Today of Bahadur Shah Zafars daughters in law
فوج لڑتی ہوئی دُور نکل گئی تھی۔ بستی، ندی سے پانی لایا ہم نے پیا اور نواب نورمحل کے چہرے پر چھڑکا۔ نورمحل رونے لگیں اور بولیں ابھی خواب میں تمھارے بابا حضرت ظل سبحانی کو دیکھا ہے کہ طوق و زنجیر پہنے ہوئے کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ،’’آج ہم غریبوں کے لیے یہ کانٹوں بھرا خاک کا بچھونا فرش مخمل سے بڑھ کر ہے۔ نورمحل گھبرانا نہیں ہمت سے کام لینا۔ تقدیر میں لکھا تھا کہ بڑھاپے میں یہ سختیاں برداشت کروں، ذرا میری کلثوم کو دکھا دو ،جیل خانے جانے سے پہلے اس کو دیکھوں گا‘‘۔بادشاہ کی یہ باتیں سن کر میں نے ہائے کا نعرہ مارا اور آنکھ کھل گئی۔ کلثوم کیا سچ مچ ہمارے بادشاہ کو زنجیروں میں جکڑا ہوگا، کیا واقعی وہ قیدیوں کی طرح جیل خانے بھیجے گئے ہوں گے۔ مرزا عمر سلطان نے ان سےکہا، کہ خواب و خیال ہے، بادشاہ لوگ بادشاہوں کے ساتھ ایسی بدسلوکیاں نہیں کیا کرتے، تم گھبراؤ نہیں وہ اچھے حال میں ہوں گے۔ حافظ سلطان بادشاہ کی سمدھن بولیں، یہ موئے فرنگی بادشاہوں کی قدر کیا خاک جانیں گےخود اپنے بادشاہ کا سر کاٹ کر سولہ آنے کو بیچتے ہیں۔ بوا نورمحل تم نے تو طوق اور زنجیر پہنے دیکھا ہے، میں کہتی ہوں کہ بنئے بقالوں سے تو اس سے زیادہ بدسلوکی دُور نہیں ہے، مگر میرے شوہر مرزا ضیاء الدین نے تسکین دلاسے کی باتیں کرکے سب کو مطمئن کردیا۔ اتنے میں بستی ناؤ میں گاڑی کو اس پار لے آیا اور ہم سوار ہوکر روانہ ہوئے۔ تھوڑی دُور جاکر شام ہوگئی اور ہماری گاڑی ایک گاؤں میں جاکر ٹھہری جس میں مسلمان راجپوتوں کی آبادی تھی۔ گاؤں کے نمبردار نے ایک چھپر ہمارے واسطے خالی کرا دیا جس میں سوکھی گھاس اور پھوس کا بچھونا تھا۔ وہ لوگ اسی گھاس پر جس کو پیال یا پرال کہتے تھے، سوتے تھے۔ ہم کو بھی بڑی خاطرداری سے (جو ان کے خیال میں بڑی خاطر تھی) یہ نرم بچھونا دیا گیا۔میرا تو اس کوڑھے سے جی اُلجھنے لگا۔ پر کیا کرتے اس وقت سوائے اس کے کیا ہوسکتا تھا، ناچار اسی میں پڑےرہے۔ دن بھر کی تکلیف اور تکان کے بعد اطمینان اور بے فکری میسر آئی تھی، نیند آگئی۔ آدھی رات کو چانک ہم سب کی آنکھ کھل گئی۔ گھاس کے تنکے سوئیوں کی طرح بدن میں چبھ رہے تھے اور پسو جگہ جگہ کاٹ رہے تھے۔ اس وقت کی بے کلی بھی خدا کی پناہ، پسوؤں نے تمام بدن میں آگ لگا دی تھی۔ مخملی تکیوں، ریشمی نرم نرم بچھونوں کی عادت تھی اس لیے تکلیف ہوئی ورنہ ہم ہی جیسے وہ گاؤں کے آدمی بھی تھے، جو اسی گھاس پر پڑے سوتے تھے۔ اندھیری رات میں چاروں طرف گیدڑوں کی آوازیں آرہی تھیں اور میرا دل سہما جاتا تھا۔ قسمت کو پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ کون کہہ سکتا تھا کہ ایک دن شہنشاہ ہند کے بال بچے یوں خاک پر بسیرے لیتے پھریں گے۔ قصہ مختصر اسی طرح منزل بہ منزل تقدیر کی گردشوں کا تماشا دیکھتے ہوئے حیدرآباد پہنچے اور سیتارام پیٹھ میں ایک مکان کرایہ کا لے کرٹہرے۔ جبل پور میں میرے شوہر نے ایک جڑاؤ انگوٹھی جو لوٹ کھسوٹ سے بچ گئی تھی، فروخت کی، اسی میں راستہ کا خرچ چلا اور چند روز یہاں بھی بسر ہوئے، جو کچھ تھا ختم ہوگیا، اب فکر ہوئی کہ پیٹ بھرنے کا کیا حیلہ کیا جائے۔ میرے شوہر اعلیٰ درجہ کے خوشنویس تھے، انھوں نے درود شریف خط ریحان میں لکھا اور چار مینار پر ہدیہ کرنے لے گئے۔ اس کے بعد یہ قاعدہ ہوا کہ جو کچھ لکھتے کمتی بڑھتی فوراً بک جاتا۔ اس طرح ہماری گزر اوقات عمدگی سے ہونے لگی۔ لیکن موسیٰ ندی کے چڑھاؤ سے ڈر کر شہر میں داروغہ احمد کے مکان میں اُٹھ آئے۔ یہ شخص حضور نظام کا خاص ملازم تھا، اس کے بہت سے مکان کرایہ پر چلتے تھے۔چند روز بعد خبر اُڑی کہ نواب لشکر جنگ، جس نے شہزادوں کو اپنے پاس پناہ دی تھی، انگریزوں کے عتاب میں آگیا ہے اور اب کوئی شخص دہلی کے شہزادوں کو پناہ نہیں دے گا ،بلکہ جس کسی شہزادے کی خبر ملے گی اس کو گرفتار کرانے کی کوشش کرے گا۔ ہم سب اس خبر سے گھبرا گئے اور میں نے اپنے شوہر کو باہر نکلنے سے روک دیاکہ کہیں کوئی دشمن پکڑوا نہ دے۔ گھر میں بیٹھے بیٹھے فاقوں کی نوبت آگئی تو ناچار ایک نواب کے لڑکے کو قرآن پڑھانے کی نوکری میرے شوہر نے بارہ روپیہ ماہوار پر کرلی۔ چپ چاپ اس کے گھر چلے جاتے اور پڑھا کر آجاتے، مگر وہ نواب اس قدر بدمزاج تھا کہ ہمیشہ معمولی نوکروں کی طرح میرے شوہر کے ساتھ برتاؤ کرتا تھا ،جس کی برداشت وہ نہ کرسکتے تھے اور گھر میں آکر رو رو کر دعا مانگتے کہ الٰہی اس ذات کی نوکری سے تو موت لاکھ درجہ بڑھ کر ہے، تو نے اتنا محتاج بنا دیا، کل تو اس نواب جیسےسیکڑوں ہمارے غلام تھے اور آج ہم اس کے غلام ہیں۔ اسی اثناء میں کسی نے میاں نظام الدین صاحب کو ہماری خبر دی۔ میاں کی حیدرآباد میں بڑی عزت تھی ،کیونکہ میاں حضرت کلے میاں صاحب چشتی نظامی فخری کے صاحبزادے تھے، جن کو بادشاہ دہلی اور نظام اپنا پیر تصور کرتے تھے۔ میاں رات کے وقت میانہ میں سوار ہوکر ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم کو دیکھ کر بہت روئے۔ ایک زمانہ تھا جب وہ قلعہ میں تشریف لاتے تھے تو مسند زرنگارپر بٹھائے جاتے تھے۔ آج وہ گھر آئے تو ثابوت بوری بھی نہ تھی ،جس پر وہ آرام سے بیٹھ جاتے۔ پچھلا زمانہ آنکھوں میں پھرنے لگا۔ خدا کی شان ،کیا تھا اورکیا ہوگیا۔ میاں بہت دیر تک حالات دریافت فرماتے رہے۔ اس کے بعد تشریف لے گئے۔ صبح کو پیام آیا کہ ہم نے خرچ کا انتظام کروا دیا ہے، اب تم حج کا ارادہ کرلو۔ یہ سن کر جی باغ باغ ہوگیا اور مکہ مکرمہ کی تیاریاں ہونے لگیں۔ القصہ حیدرآباد سے روانہ ہوکر بمبئی آئے اور یہاں اپنے سچے رفیق ،بستی کو خرچ دے کر اس کے گھر رخصت کر دیا۔ جہاز میں سوار ہوئے، جو مسافر یہ سنتا تھا کہ یہ شاہِ ہند کے گھرانے کے ہیں تو ہمارے دیکھنے کا شوق ظاہر کرتا تھا، اس وقت ہم سب درویشانہ رنگین لباس میں تھے۔ ایک ہندو نے، جس کی شاید عدن میں دکان تھی اور جو ہمارے حال سے بے خبر تھا، پوچھا کہ تم لوگ کس پنتھ کے فقیر ہو، اس کے سوال نے زخمی دل کو چھیڑ دیا، میں بولی: ’’ہم مظلوم شاہ گرو کے چیلے ہیں، وہی ہمارا باپ تھا وہی ہمارا گرو۔ پاپی لوگوں نے اس کا گھربار چھین لیا اور ہم کو اس سے جدا کر کے جنگلوں میں نکال دیا،۔ اب وہ ہماری صورت کو ترستا ہے اور ہم اس کے درشنوں بغیر بے چین ہیں‘‘۔اس سے زیادہ اور کیا اپنی فقیری کی حالت بیان کریں۔ جب اس نے ہماری اصلی کیفیت لوگوں سے سنی تو بے چارہ رونے لگا اور بولا,’’ بہادرشاہ ہم سب کا باپ اور گرو تھا۔ کیا کریں رام جی کی یہی مرضی تھی کہ وہ بے گناہ برباد ہوگیا۔مکہ پہنچے تو اللہ میاں نے ٹھہرنے کا ایک عجیب ٹھکانہ پیدا کر دیا۔ عبدالقادر نامی میرا ایک غلام تھا، جس کو میں نے آزاد کرکے مکہ بھیج دیا تھا، یہاں آکر اس نے بڑی دولت کمائی اور زمزم کا داروغہ ہوگیا، اس کو جو ہمارے آنے کی خبر ملی، دوڑا ہوا آیا اور قدموں پر گر کر خوب رویا، اس کا مکان بہت اچھا اور آرام دہ تھا، ہم سب وہیں ٹھہرے۔چند روز کے بعد سلطان روم کے نائب کو جو مکہ میں رہتا تھا، ہماری خبر ہوئی تو وہ بھی ہم سے ملنے آیا۔ کسی نے اس سے کہا تھا کہ شاہِ دہلی کی لڑکی آئی ہے جو بے حجابانہ باتیں کرتی ہے۔ نائب سلطان نے عبدالقادر کے ذریعے سے ملاقات کا پیام دیا جو میں نے منظور کیا۔ دوسرے دن وہ ہمارے گھر پر آیا اور نہایت ادب قاعدہ سے بات چیت کی۔ آخر میں اس نے خواہش کی کہ میں آپ کے آنے کی اطلاع حضور سلطان کو دینا چاہتا ہوں۔ میں نے اس کا جواب بہت بے پروائی سے دیا کہ، اب ہم ایک بڑے سلطان کے دربار میں آگئے ہیں، اب ہمیں کسی دوسرے سلطان کی پروا نہیں ہے۔ نائب نے ایک معقول رقم ہمارے اخراجات کے لیے مقرر کردی اور ہم نو برس وہاں مقیم رہے۔ اس کے بعد ایک سال بغداد شریف، ایک سال نجف اشرف و کربلائے معلی میں بسر ہوا۔ اتنی مدت کے بعد دہلی کی یاد نے بے چین کیا اور روانہ ہوکر دہلی آگئے۔ یہاں انگریزوں کی سرکار نے بہت بڑا ترس کھا کر دس روپیہ ماہوار پنشن مقرر کردی۔ اس پنشن کی رقم کا سن کر اوّل تو مجھے ہنسی آئی کہ میرے باپ کا اتنا بڑا ملک لے کر دس روپیہ معاوضہ دیتے ہیں، مگر پھر خیال آیا کہ ملک تو خدا کا ہے کسی کے باوا کا نہیں ہے، وہ جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے ،جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ انسان کو دم مارنے کی مجال نہیں ہے۔