ایک ناقابل یقین سچی کہانی
نانی اماں کی زبانی
شازیہ عندلیب
میں ڈر کے مارے ماں جی کی گود میں دبک گئی۔میں نے ڈری ڈری آواز میں کہا چور۔سب نے پوچھا کدھر ؟ میں نے آسمان کی جانب اشارہ کیا۔ماں جی نے پھر پوچھا چور کدھر سے آیا تھا میں نے آسمان کی جانب اشارہ کر کے کہا اوپر سے۔ہائے ہائے ساری ماسیوں نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا نہ پتر آسمانوں چور کس طرح آسکتا ہے؟ میں نے بتایا کہ چور اور کوئی نہیں بلکہ چیل تھی ماسی صغریٰ کی سونے کی زنجیر کسی کالو یا کلو نے نہیں بلکہ ایک کالی چیل نے چرائی ہے۔یہ سن کر سب ہکا بکا رہ گئیں۔سب کے منہ اس انکشاف پہ کھلے رہ گئے۔میں نے انہیں بتایا کہ میں نے خود کالی چیل کو اڈاری مار کر خالہ صغریٰ کی چادر سے زنجیر چرا کر لے جاتے دیکھا ہے۔اس سے پہلے کوے چھت پر سے اکثر کھانے کی چیزیں پلیٹوں سے اڑا کر لے جاتے تھے۔شہدے کہیں کے۔پر کوئی چیل اس قدر کمینی ہو سکتی ہے یہ تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ماسی زینا نے بڑے دکھ سے اظہار خیال کیا۔پھر دوسری عورتیں بھی اس چورنی چیل کو ملامت کرنے لگیں۔افسوس تو یہ تھا کہ چور کا نام معلوم ہونے کے باوجود کوئی اسے سزا نہیں دلوا سکتا تھا اور نہ جیل بھیج سکتا تھا۔خیر ساری عورتیں تاسف سے ہاتھ ملتی اپنے اپنی گاگریں اٹھا کر سر شام گھروں کو لوٹ گئیں۔
سب نے اپنے اپنے گھروں میں یہ عجیب چور کا قصہ سنایا۔کچھ منچلے شکاریوں نے اس چیل کی کھوج لگانے کی ٹھانی اور اپنی اپنی بندوقیں اور شکار کا سامان لے کر قریبی جنگلوں کی جانب چل دیے۔جنگل کے درختوں پہ سب چیلوں کے گھونسلے صبح چیک کیے جب وہ اپنا دانا لینے باہر جاتی تھیں۔ان گھونسلوں میں صرف انکے انڈے اور بچے ہوتے۔یہ موسم انڈوں سے بچے نکلنے کا تھا۔ایک شکاری منجو ماچھی نے جو چیل کے گھونسلے میں جھانکا تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ سونے کی زنجیر اپنے چھوٹے بچے کی آنکھوں سے لگا رہی تھی۔یکلخت بچے نے بند آنکھیں کھول دیں۔بس وہ یہ خبر لے کر قصبہ میں واپس لوٹ آیا۔پورے قصبے میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ چیلیں سونے کے زیورات چرا کر اپنے بچوں کی آنکھیں کھلواتی ہیں۔یعنی چیلوں کے بچے سونے کا چمچ لے کر تو نہیں پیدا ہوتے مگر سونے کی چمک سے آنکھیں کھولتے ہیں۔ یہ خبر قصبے کے چوروں کے لیے کسی نوید مسرت سے کم نہ تھی۔اس کے بعد قصبے کے کئی گھروں میں چوری کی وارداتیں ہوئیں اور چوروں نے یہ بات مشہور
کر دی کہ سونا چیلیں لے گئی ہیں۔