دل میں ایمان کی تڑپ موجود ہوتو کند ذہن ہونے کے باوجود اللہ اس کی لگن دیکھتے ہوئے اسکے لئے علم کے اسباب پیدا کردیتے اور اسکو ذہانت کا منبع بنا دیتے ہیں ۔تاریخ میں کئی ایسے مسلم سکالر اس کی مثال ہیں کہ دور طالب علمی کے دوران ان سے پڑھا ہوا یاد نہیں رہتا تھا لیکن اللہ اور اللہ کے پیارے حبیب ﷺ سے ان کی لگن نے ان کے سینے کو نورعلم سے بھر دیا۔ ان کے لئے غیب سے اسباب پیدا ہوگئے اور وہ جو کند ذہن اور جن کی یادداشت کمزور تھی عالم اسلام کی قابل فخر شخصیت بن گئے ۔
چودھویں صدی کے عالم جناب علامہ سعد الدین تفتازانیؒ کے ساتھ بھی یہی معاملہ درپیش تھا کہ وہ ابتدء میں بہت کند ذہن تھے۔لیکن یہی علامہ بعد میں فلسفہ ،تفسیر وحدیث کے امام تصور کئے گئے ،درجنوں ایسی کتب تحریر کیں جو نسلوں تک علم سے سینوں کو منور کرتی رہی ہیں ۔ان کی قرآن کی تفسیر پرمبنی کتاب کشف الاسرار سرمایہ علم ہے ۔
علامہ سعد الدین تفتازانی ایران کے علاقہ تفتازانی میں پیدا ہوئے تو انہیں قاضی عضدا لدین کے مدرسہ میں تعلیم کے بھیج دیا گیا ۔ان کے ذہن کا یہ عالم تھا کہ حلقہ درس میں ان سے زیادہ کند ذہن اور کمزور یادداشت والا کوئی اورطالب علم نہ تھا۔ساتھی ان کا مذاق اڑاتے تھے ۔ لیکن مسلسل کوشش اور کتابوں سے دوستی نے ان کی سن لی ۔
آپ نے اپنے حالات زندگی میں بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص آپ سے کہہ رہا ہے ”اے سعد الدین! چلو سیر وتفریح کے لئے چلتے ہیں“
آپ نے جواب دیا ”میاں میں سیر وتفریح کیلئے پیدا نہیں کیا گیا ،میں انتہائی محنت اور مطالعہ کے با وجود کتابیں نہیں سمجھ پا تا ، تفریح کروں گا تو کیا حال ہو گا میرا۔میرا ادھورا سبق کون یاد کرے گا “
یہ سن کر وہ شخص چلا گیا ، کچھ دیر کے بعد پھر آیا اور اسی طرح کہا آپ نے پھر انکار کیا ، تیسری مرتبہ وہ پھرآیا اور کہا ” میں اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ رسالتمآبﷺ یاد فر ما رہے ہیں“ یہ سننا تھا کہ آپ جھٹ سے اٹھے اور ننگے پاو¿ں ہی اسکے ہمراہ چل پڑے۔ شہر کے با ہر ایک جگہ کچھ درخت تھے ۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ اللہ کے نبیﷺ اپنے صحابہؓ کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فر ما ہیں ،آپ کو دیکھ کر سرکار ﷺ نے تبسم آمیز لہجہ میں پوچھا”اے سعد میں نے تم کو بار بار بلایا ، تم نہیں آئے “
علامہ سعد بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا ”آقا میں اور میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان، مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپﷺ یاد فر رہے ہیں “اس کے بعد آپ نے اپنی کند ذہنی کی شکایت کی تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ”افتح فمک“ یعنی منہ کھولو ۔آپ نے منہ کھولا توحضور اکرم ﷺ نے اپنا لعاب ذہن آپ کے منہ میں ڈالا اور دعا دے کر فر مایا ” اب جاو تمہیں اسی واسطے بلایا تھا“۔
علامہ فرماتے ہیں میں بیدار ہو کر جب اپنے استاذ قاضی عضد الدین کی مجلس میں حاضر ہو ئے اور درس شروع ہوا تو اثنائے درس میں آپ نے کئی اشکالات کئے تو ساتھیوں نے خیال کیا کہ یہ سب بے معنیٰ اشکالات ہیں ، مگر استاذ تاڑ گئے اور فرمایا ” سعد آج تم وہ نہیں ہو جو اس سے پہلے تھے “ استاذ مکرم کی نگاہ کا استعجاب دیکھا تو تنہائی میں انہیں رسالت مآبﷺ کی کرم نوازی کا معجزہ بیان کیا ۔
mashallah
agr insan k dill main bashri kamzoriyoon k bawajood siratal mustakeem pr chalny ki saci lagan ho tu Allah usy mayos nhi loutata…eis ki zinda misaal yeh tehreer hy.