*بڑھاپا پوچھ کر نہیں آتا اور نہ ہی دھکے دینے سے واپس جاتا ھے.
یہ مشرق میں مرض.، .
مغرب میں زندگی سے انجوائے کرنے کا اصل وقت سمجھا جاتا ہے…
بڑھاپے میں دانت جانے لگتے ہیں…
دانائی آنے لگتی ہے…
اولاد اور اعضاء جواب دینے لگتے ہیں…
بیوی اور یادداشت کا ساتھ کم ہونے لگتا ہے…
خوراک اور صحت آدھی رہ جاتی ہے…
نظر اور بال بھی کم ہونے لگتے ہیں…
*بڑھاپا آتا ہے تو مرتے دَم تک ساتھ نبھاتا ہے*
حسین لڑکیاں ’انکل‘ کہہ کر پکارنے لگتی ہیں
جسے سن کر بوڑھا جس کرب سے گزرتا ھے وہ کوئی دوسرا بوڑھا ہی محسوس کر سکتا ھے –
انسان دو چیزیں مشکل سے قبول کرتا ہے…
اپنا جرم اور اپنا بڑھاپا…
بچپن اور جوانی دوسروں کی دلجوئی اور خوشی کے لئے ہوتا ہے…
بڑھاپا ڈاکٹروں کی پرورش کے لئے…
جب بار بار اللہ ، ڈاکٹر اور بیوی یاد آنے لگے…
تو سمجھ لیں آپ بوڑھے ہوگئے ہیں…
بڑھاپے کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے…
کہ آپ بے ضرر ہوتے جارہے ہیں اور
اپنے سوا کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے…
جب بچے آپ کو نانا، دادا کہہ کر اور حسین لڑکیاں انکل کہہ کر پکارنے لگیں…
تو تردد سے کام نہ لیں…
تنہائی پاتے ہی غم بھلانے کے لئےسیٹی بجائیں…
کیونکہ آپ سیٹی ہی کے قابل رہ گئے ہیں…
بڑھاپے میں اگر اولاد آپ کی خدمت کرتی ہے…
اس کا مطلب ہے…
کہ آپ نے ان کی تربیت اور اپنے اثاثوں پر پورا دھیان دیا ہے….
بوڑھا ہونا آسان کام نہیں…
اس کے لئے برسوں کی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے….
بوڑھے ہونے کے بہت سے فائدے ہیں…
کافی سارے نقصانات بھی ہیں…
سب سے بڑا فائدہ یہ ہے…
کہ بوڑھے کو دیکھ کر سب سیٹ چھوڑ دیتے ہیں…
سوائے سیاست دان کے…
اچھا خاندان اور اچھی حکومت ہمیشہ اپنے بوڑھوں کا خیال رکھتی ہے…..
بوڑھوں کو بندی اور خاندانی منصوبہ بندی دونوں کی ضرورت نہیں ہوتی…
مگر نیت اور نظر پھر بھی خراب رہتی ہے…
دنیا میں سب سے آسان کام نانا، نانی یا دادا، دادی بننا ہے…
اس میں آپ کو کچھ نہیں کرنا پڑتا …
جو کچھ کرنا ہو، آپ کے بچوں کو کرنا پڑتا ہے…
انسان کو زندگی میں دو بار رشتوں کی اصلیت کا پتہ چلتا ہے…
*بیوی کے آنے کے بعد یا پھر بڑھاپا آنے کے بعد*
*ہر عمر رسیدہ کیلیے یہی پیغام ہے کہ دنیا سے انجوائے کرو قبل اس کے کہ دنیا تم سے انجوائے کرے*