سپریم کورٹ میں جعلی بنک اکاونٹس کے ذریعے اربوں روپے کی ٹرانزیکشن کے ازخود نوٹس کیس کے دوران وکیل رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ۔
نیوز ویب سائٹ ’پاکستان24‘ میں شائع رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میںتین رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ اس موقع پرچیف جسٹس نے پوچھا کہ اومنی گروپ کے مالک انور مجید کدھر ہیں؟ اومنی گروپ کے مالک ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ وکیل رضا کاظم نے بتایا کہ انور مجید بیمار ہیں وہ دبئی کے ہسپتال میں داخل ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب بھی ایسا مقدمہ آتا ہے لوگ ہسپتال چلے جاتے ہیں، انور مجید سے کہیں آئندہ ہفتے پیش ہوں، عدالت انور مجید کو بلانے کا اختیار رکھتی ہے۔ ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ اومنی گروپ نے 2 ارب 82 لاکھ روپے مختلف بنک اکاونٹس میں جمع کرائے۔ ایڈووکیٹ رضا کاظم نے بتایا کہ 5 سال سے انور مجید کا اومنی گروپ سے کوئی تعلق نہیں ہے، اومنی گروپ کو 19 لوگ چلا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چور کو ہر کوئی اس کے نام سے جانتا ہے، انور مجید کو عدالت میں دیکھنا چاہتے ہیں، کب آئیں گے، ابھی معلوم کر کے بتایا جائے، اس کے بیٹے بھائی کون ہیں؟۔ ایک وکیل نے عدالت کو بتایا گیا کہ عبدالولی مجید بیٹا ہے او ملک سے باہر ہے، علی کمال، ذوالقرنین مجید، نمر مجید بھی بیٹے ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ جواب ملا کہ معاون وکیل ہوں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کو وکالت نامے کس نے دیئے؟ کس کی طرف سے پیش ہو رہے ہیں؟۔ چیف جسٹس نے سٹاف کو حکم دیا کہ ان کے وکالت نامے چیک کریں، رضا کاظم کا وکالت نامہ بھی دیکھیں۔جسٹس ثاقب نثار غصے کے عالم میں بولے کہ حد ہو گئی ہے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ سپریم کورٹ کے وکیل ہیں؟۔ وکیل نے بتایا کہ میرا نام بیرسٹر جمشید ملک ہے اور سپریم کورٹ کا وکیل ہوں، دو لوگوں نے میرے سامنے وکالت نامے پر دستخط کئے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کا ایڈووکیٹ آن رکارڈ کون ہے، آپ کے پاس کمپنی کی اتھارٹی کہاں ہے؟ آپ جعل سازی کر رہے ہیں، معلوم ہے قانون میں اس کی کیا سزا ہے؟ وکیل صاحب، کہیں اپنا لائسنس نہ گنوا دینا۔ بیرسٹر جمشید ملک نے کہا کہ وہ نہیں ہوگا سر۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کون ہے، ارشد چودھری ہے تو اس کو وکالت نامہ کس نے دیا؟ پاور آف اٹارنی کے بغیر کیسے وکالت نامے جمع کرائے، کیا بڑے لوگوں کیلئے قانون مختلف ہے۔ چیف جسٹس نے سٹاف سے کہا کہ پولیس کو بلائیں ان کے خلاف پرچہ درج کرائیں، رجسٹرار کو بھی بلا لیں۔ بیرسٹر جمشید نے کہا کہ میں نے کوئی ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ہائر نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بغیر کسی عدالتی ایڈوکیٹ آن رکارڈ کے یہاں کیسے آ گئے۔ وکیل نے بتایا کہ انور مجید اور عبدالحلیم کی طرف سے آیا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ وہ تو پاکستان سے باہر تھے۔ جمشید ملک نے بتایا کہ تین دن پہلے ان سے وکالت نامے پر دستخط لئے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اپنا پاسپورٹ لاو، ابھی دیکھ لیتے ہیں۔ جمشید ملک نے جواب دیا کہ وہ ہوٹل کے کمرے میں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی جا کر لاو۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وکیل رضا کاظم اسی کیس میں ایک ماہ قبل پیش ہوئے تھے، اگر موکل سے ملے بھی نہیں تو کیسے وکیل بن کر پیش ہو گئے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رضا، آپ کو پتہہے، آپ ملک کے سینئر ترین وکیل ہیں، کیا گزشتہ سماعت پر بھی بغیر کسی وکالت نامے کے پیش ہو گئے تھے؟ آپ نے عدالت کو بتایا تھا کہ آپ کے پاس کوئی تحریری اتھارٹی نہیں۔ چیف جسٹس نے بیرسٹر جمشید ملک سے پوچھا کہ کیا آپ کو اس عدالت میں پیش ہونے کے قانون کا پتہ ہے؟ وکیل نے کہا کہ ای میل کے ذریعے وکالت نامے بھیج دیئے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے خلاف پرچہ کراوں گا، عدالت کو دھوکا دیا گیا۔ وکیل نے کہا کہ عدالت اور چیف جسٹس تو کیا میں نے کسی کو بھی دھوکا نہیں دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رضا کاظم کا ہم احترام کرتے ہیں مگر اس طرح نہیں کرنے دیں گے۔ وکیل جمشید ملک نے کہا کہ12جولائی عدالت نے نوٹس کیا تھا تو انور مجید نے مجھ سے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کا وکیل کر لوں، میں نے پہلے اعتزاز احسن سے بھی رابطہ کیا تھا، پھر رضا کاظم سے بات کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو دھوکہ دینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جمشید ملک نے کہا کہ میں نے صرف اپنے موکل کے پیغام پہنچانے کا کام کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیس فائل میں بتائیں پاور آف اٹارنی کہاں لگی ہوئی ہے۔ جسٹس عمر عطا نے کہا کہ وہ دستاویزات دکھائیں جن پر آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے موکل نے دستخط کیے، اپنے موکل کے دستخط شدہ دستاویزات دکھائیں جو آپ نے وکیل کے حوالے کیے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایک وقت میں دو مختلف بیانات دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے کہہ رہے تھے کہ میرے سامنے دستخط کئے، اب کہہ رہے ہیں کہ ای میل کے ذریعے وکالت نامے آئے، میں ابھی اس کا لائسنس معطل کرتا ہوں، اس کے خلاف کیس درج کرائیں گے۔
اس دوران اعتزاز احسن عدالت میں کھڑے ہوئے اور بتایا کہ جمشید ملک درست کہہ رہے ہیں، مجھے بھی ان کا فون آیا تھا کہ انور مجید کی طرف سے وکالت کریں، جمشید ملک کا کام صرف پیغام پہنچانا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وکالت نامے ضروری ہیں، ایڈوکیٹ آن رکارڈ کو جو دستاویز دی اس کی پنجاب فرانزک لیبارٹری سے تصدیق کرا لیں گے۔ رضاکاظم اور ایڈووکیٹ خالد رانجھا مل بیٹھ کر یہ معاملہ سلجھائیں۔