”ہم افغانستان پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے لیکن اس وقت تک جنگ بندی بھی نہیں کریں گے جب تک ۔۔۔ “ طالبان نے اعلان کردیا

”ہم افغانستان پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے لیکن اس وقت تک جنگ بندی بھی نہیں کریں گے جب تک ۔۔۔ “ طالبان نے اعلان کردیا

افغان طالبان نے واضح کیا ہے کہ وہ پورے افغانستان پر بزور طاقت قبضہ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس سے امن نہیں آئے گا لیکن اس وقت تک جنگ بندی بھی نہیں کریں گے جب تک افغانستان میں ایک بھی غیر ملکی فوجی موجود ہے۔

امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات کے دوران طالبان کے وفد کی سربراہی کرنے والے طالبان رہنما شیر محمد عباس ستانکزئی نے بی بی سی کو انٹرویو میں کہا کہ طالبان کو اپنے اقتدار کے دنوں میں مخالف گروہوں کی مسلح جدوجہد کے باعث احساس ہوگیا تھا کہ مسائل کا بہترین حل بات چیت ہے۔انہوں نے امن کو جنگ سے زیادہ مشکل چیز قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ افغان تنازعہ ختم کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ طالبان پورے افغانستان پر بزور طاقت قبضہ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس سے امن نہیں آئے گا لیکن اس وقت تک جنگ بندی بھی نہیں کریں گے جب تک افغانستان میں ایک بھی غیر ملکی فوجی موجود ہے۔

خیال رہے کہ منگل کے روز افغان طالبان اور افغان اپوزیشن رہنماﺅں کے مابین روس کے دارالحکومت ماسکو میں مذاکرات ہوئے ہیں۔ ان مذاکرات کو امریکہ اور افغان حکومت کی تائید حاصل نہیں ہے۔

عباس ستانکزئی نے ماسکو میں دیے گئے انٹرویو میں خیال ظاہر کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں امن لانا چاہتی ہے۔ خواتین کے حقوق کے بارے میں بات کرتے ہوئے عباس ستانکزئی نے کہا کہ طالبان کے بڑھتے اثرات سے خواتین کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ خواتین کو شریعت اور افغان ثقافت کے تحت ان کے سارے حقوق دینے کی کوشش کریں گے۔ وہ سکول جا سکتی ہیں، وہ یونیورسٹی جا سکتی ہیں، وہ ملازمت کر سکتی ہیں۔

عباس ستانکزئی سے جب یہ پوچھا گیا کہ وہ کن حالات میں افغان حجکومت سے بات کرنے کے لیے راضی ہوں گے تو انہوں نے مبہم جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ جب امریکہ اپنی افواج کے انخلا کا اعلان کرے گا تو وسیع تر افغان مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ جس میں دوسرے لوگوں کے ساتھ موجودہ افغان حکومت کے نمائندے ‘مستقبل کی حکومت چننے یا منتخب کرنے’ کے لیے شامل ہوں گے۔

ماسکو میں افغان اپوزیشن سے مذاکرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے عباس ستانکزئی نے کہا کہ طالبان نے ماسکو میں افغانستان کے ان سیاسی رہنماو¿ں سے ملاقات کا فیصلہ کیا ہے جن کے پاس زمین پر ’افرادی قوت‘ ہو۔خیال رہے کہ طالبان اشرف غنی حکومت کو امریکی کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں