ماں جی !اللہ نےنعمتیں دی ہیں تو انکا اظہار کیوں نہ کریں بھئ !یہ کیا نظر لگ جائے گی ٹوک لگ جائے گی تو نقصان ہو جائے گا ،مجھے تو سمجھ نہیں آتی میری ساس کی اتنی پابندیاں ۔
ماں جی مسکرا کر بولیں ؛”پتر ! ہم چیزیں ڈھانک کر کیوں رکھتے ہیں ؟
ماہا نے کہا،تاکہ مکھیاں اور جراثیم نہ لگیں !
بس اسی لئیے؟
ماں جی نے حیرت کا اظہار کیا تو ماہا مزید سوچتے ہوئے بولی”ہمم تاکہ مٹی نہ لگے کسی چیز کو۔
ماں جی نےاس سے پوچھا مٹی نہ لگے کا کیا مطلب ؟
ماہا نے کہا مطلب ایک تو گرد،دھول مٹی سے چیزیں ویسے ہی خراب ہوتی ہیں اوپر سے وقت الگ بربااااااااد
اوہ ! اب کچھ کچھ سمجھ آئ ہے واقعی جب جب زیادہ تصویریں ،اور لائف ایونٹس شئیر کروں نا ماں جی واقعی یہی ڈسٹنگ والا سائکل شروع ہو جاتا ہے،بچے رو رو کر ہلکان صحت خراب ،میری اپنی طبیعت بوجھل۔۔۔۔چلیں اب آگے احتیاط کیا کروں گی ۔۔۔۔
پر نائلہ بھابھی آپ کو ماں جی نے کچھ کہا تھا یا۔۔۔۔مطلب آپ کو کسطرح سمجھ آئ یہ بات۔۔۔
نائلہ زور سے ہنستے ہوئے بولیں ،ارے چاچا جی نے رنگین مارکر تحفے میں دیئے تھےنا بچوں کو ،بس ذرا دیر ڈھکنا لگانا کیا بھولے،سارے رنگ خشک ہو کر رہ گئے،بڑی تدبیریں لگانے کی کوشش کر ڈالی ،مگر نقصان تو ہو چکا تھا۔
بہرحال فائدہ یہ ہوا کہ یہ سمجھ آگئ کہ زندگی سے غائب ہوتے رنگوں کی اہم وجہ اپنے معاملات کی دوسروں کو ہوا لگنے دینا ہوتی ہے ۔
۔۔۔پھر یہ بھی نا کہ جب اتنا دکھانا نہیں ،تو دکھاوا بھی نہیں،جب دکھاوا نہیں ،تو صرف اپنی خوشی کی خاطر آخر کتنے،کپڑے؟،زیور؟،سیر و سیاحت؟
تب سمجھ آیا کہ ہم ضرورت سے کہیں زیادہ خرچ کرتے رہے،ذرا سی بیجاخواہش کو مار لینے کے بجائےکتنے ہی ضرورتمندوں کا حق ،نادانی میں مارتے رہے۔
تصویر کی حرمت آج جتنی سمجھ آتی ہے نا ماہا پہلے کبھی نہیں آئ تھی،زندگی کی کہانی،تصویر دیکھ کر ویسا ہی کھانے،پہننے،رہنے،گھومنے دِکھنے اور پھر اپنی تصویر لے کر دوسروں کو دکھا کر مزید نئ کہانی شروع کرنے کے گرد گھومتی چلی جاتی ہے ،
فرح رضوان