برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہاں سے گزرنے والے جہاز غائب ہو جاتے ہیں۔ اب ایک اور ایسی جگہ کا انکشاف ہوا ہے جہاں ماضی میں ہونے والے واقعات ایسے ہولناک ہیں کہ آدمی سن کر ہی خوفزدہ ہو جائے۔
اس جگہ کا نام ’آبنائے ملاکا‘ ہے جسے دوسری برمودا ٹرائی اینگل کہا جاتا ہے۔ یہ 890کلومیٹر چوڑی سمندری گزرگاہ ہے جو انڈونیشیاءاور ملائیشیاءکے درمیان سے گزرتی ہے اور بحرہند کو بحرالکاہل سے ملاتی ہے۔ یہ دنیا کی چند مصروف ترین آبناﺅں میں سے ایک ہے جہاں سے سالانہ 1لاکھ 20ہزار کے لگ بھگ جہاز گزرتے ہیں۔ تنگ ترین جگہ پر اس آبنائے کی چوڑائی محض 3کلومیٹر ہے۔ دنیا کی کل تجارت کا ایک تہائی حصہ اسی آبنائے ملاکا کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آبنائے ملاکا کا ایک خوفزدہ کر دینے والا پہلو یہ ہے کہ یہاں اب تک ہزاروں جہاز ڈوب چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آبنائے کی تہہ میں ایک بہت بڑا خزانہ بھی ہے جو اب تک دریافت نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس آبنائے میں بھوت بحری جہازبھی دیکھے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق آبنائے ملاکا وہی جگہ ہے جہاں ملائیشین ایئرلائنز کی پرواز ایم ایچ 370گر کر سمندر برد ہوئی تھی۔ اس آبنائے میں جہازوں کے ڈوبنے کی کئی حیران کن کہانیاں ہیں۔ مثال کے طور پر 1948ءمیں یہاں نیدرلینڈ کا بحری جہاز ’ایس ایس اورینگ میڈن‘ ڈوبا تھا اور جہاز ڈوبنے سے پہلے اس کے عملے کی طرف سے انتہائی خوفناک آخری میسیج بھیجا گیا۔ اس میسیج میں لکھا تھا کہ ”کیپٹن سمیت تمام آفیسر مر چکے ہیں اور ان کی لاشیں چارٹ روم اور برج میں پڑی ہیں۔ ممکنہ طور پر پورا عملہ مر چکا ہے…. میں مرنے لگا ہوں۔“اس وارننگ میسیج کے بعد قریب واقع ’سلور سٹار‘ نامی بحری جہاز فوری طور پر اس جگہ پر پہنچا لیکن انہوں نے جو کچھ دیکھا وہ پانی پر تیرتا ہوا ایک قبرستان تھا۔
سلور سٹار کے عملے نے بعد ازاں بتایا کہ اس جہاز کے عملے کی لاشیں مسخ شدہ تھیں۔ ان کی آنکھیں نوچ کر باہر نکالی جا چکی تھیں۔ سب کے منہ پوری طرح کھلے ہوئے تھے اور بانہیں باہر کی طرف پھیلی ہوئی، جیسے وہ آخری وقت میں مدد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔اس میں سب سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ ان میں سے کسی ایک کے جسم پر بھی کوئی زخم نہیں تھا۔ سلور سٹار کا عملہ اس جہاز کو واپس بندرگاہ پر لانے کے لیے اپنے جہاز کے ساتھ باندھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس میں آگ بھڑک اٹھی اور کچھ ہی دیر میں جہاز لاشوں سمیت سمندر میں ڈوب گیا۔حیران کن طور پر ڈوبنے کے بعد سطح سمندر پر اس کے کوئی آثار باقی نہیں رہے۔ حتیٰ کہ کسی مرنے والے کی لاش بھی اوپر نہیں آئی۔
1959ءمیں اس واقعے کے متعلق اسسٹنٹ ڈائریکٹر سی آئی اے ایلن ڈولیس ، سی ایچ مارک جے نے اعلیٰ حکام کو ایک خط لکھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ”آبنائے ملاکا میں جو اتنی بڑی تعداد میں بحری اور ہوائی جہاز ڈوبے ہیں ان کے متعلق اٹھنے والے سوالات کے جوابات ہمیں ’ایس ایس اورینگ میڈن‘ کے ڈوبنے کی کہانی سے مل سکتے ہیں۔“دوسری جنگ عظیم میں اس جگہ پر جاپان کا جنگی بحری بیڑہ ہیگورو غرق ہو گیا تھا اور اس میں سوار فوجیوں کی لاشیں چند دن بعد بینکالیس آئی لینڈریو کے قریب پانی پر تیرتی ہوئی ملی تھیں۔آبنائے ملاکا میں اب تک جو جہاز بھی ڈوبا اس کے ساتھ کیا پیش آیا، یہ آج تک معلوم نہیں ہو سکا اور یہ کہانیاں ہمیشہ پراسرار ہی رہیں۔ اس کا اندازہ ملائیشین ایئرلائنز کی پرواز 370سے لگایا جا سکتا ہے جسے کھوجنے کی سالہا سال کی کوششوں کے باوجود اب تک اس کے ملبے کا سراغ بھی نہیں لگایا جا سکا۔