فوزیہ وحید اوسلو
والدین در حقیقت انسان کے دنیا میں آنے کا ذریعہ ہوتے ہیں انسان کا وجود والدین کے رہین منت ہوتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بھی کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا،جب تمہارے ماں باپ میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک مت کہو،سور ہ بنی اسرائیل کی آیت مبارکہ میں والدین کے ساتھ خصو صی اس وقت حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے، جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں کیوں کہ اس عمر میں انسان عموما چڑچڑا ہوجاتا ہے اور اس کی طبیعت میں بے قراری و بے چینی پیدا ہوجاتی ہے لہٰذا والدین کو اس کیفیت میں اولاد کی طرف سے اچھے رویے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔والدین کا ایک ایسا رشتہ ہے اس جیسا رشتہ شاید دنیا میں نہ ہوجب بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو والدین اپنی نیند کی پرواہ کیے بغیر اپنے لخت جگر کی نیند کی پرواہ کرتے ہیں اپنی بیماری کی پرواہ کیے بغیر رات کے اندھیرے میں بھی اپنے لخت جگر کو اٹھا کر اسے سلانے کی کوشش کرتے ہیں، جو بھی ہو اپنے لخت جگر کو ہر طرح کا آرام دیتے ہیں اللہ رب العزت نے بھی ماں کے قدموں تلے جنت کو رکھ دیا ۔اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایااگر جنت کمانی ہوتو اپنے والدین کی خدمت کرو ‘ والدین جو حکم دیں ان کو بجالاؤ ان کے آگے اف تک نہ کرو، جب وہ باہر سے آئیں تو ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاؤ جس طرح کئی مقام پر والدین کے ساتھ ادب سے پیش آنے اور ان کے سامنے عاجزی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ا سی طرح جب والدین دنیا سے رخصت ہوجائیں تو ان کے لیے سرمایہ آخرت نیک اولاد ہی ہوتی ہے جو اِن کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرتی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اولاد کو اپنے والدین کے حق میں رحمت و مغفرت کی دعا بھی سکھائی ،ترجمہ، اے میرے رب میرے والدین پر رحمت کاملہ نازل فرما جس طرح کہ انہوں نے مجھے پالا یعنی میرے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا۔
والدین ا للہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں اس نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی قدر کی جائے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا جائے ۔یہاں پر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ ماں کے بعد وہ باپ ہی کی شخصیت ہے جو اولاد کی حفاظت اور پرورش وپرداخت میں اثر انداز ہوتی ہے ،اس کو تعلیم وتربیت دینے میں اور اس کو ہر طرح سے نکھارنے میں باپ کا بڑاہاتھ ہوتاہے اس کی پائی پائی کی کمائی کا بیشتر حصہ اولاد کے لیے صرف ہوتا ہے اسی طرح اولاد کے غم اور ان کی خوشی سے خوشی کو حقیقی معنی میں محسوس باپ ہی کرتا ہے ۔ ماں کے بعد باپ بھی اپنی زندگی کاانمول حصہ اولاد کی نذر کردیتاہے اے میرے پروردگار! تو مجھے اور میرے ماں باپ اور جو بھی ایمان کی حالت میں میرے گھر میں آئے اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دے ماں اور پھر باپ یہ دونوں اس دنیا میں نہایت قیمتی جوہر ہیں اور جنت میں داخل ہونے کے اسباب بھی ہیں انسان کی بد نصیبی اس سے بڑھ کے اور کیا ہوکہ اسے اپنے باپ کی محبت میں ڈرامہ نظر آنے لگے اور اپنے ہی بچے اپنے باپ کی برائیاں کرنے لگیں تو قیامت کو برپا ہونے کے لئے اس سے بہتر وقت کیا مل سکتا ہے ۔باپ کا احترام کرو تاکہ تمہاری اولاد تمہارا احترام کرئے باپ کی باتیں غور سے سنو تاکہ دوسروں کی نہ سننی پڑیں،باپ کے سامنے اونچا نا بولو ورنہ اللہ تعالٰی تمہیں نیچا کر دے گا،باپ کے سامنے نظر جھکا کے رکھو تا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا میں بلند کرے ،باپ کی سختی برداشت کرو تاکہ باکمال ہو سکو، باپ کے آنسو تمہارے دکھ سے نہ گریں ورنہ اللہ تعالیٰ تمہیں جنت سے گرا دیں گے۔ باپ جو صبح سے شام تک اولاد کی پرورش ان کی تربیت کے سلسلہ میں بے چین رہتا ہے وہ اس خیال میں محو رہتا ہے کہ اخراجات کی تکمیل کیسے ہو باپ کا مقام بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایاباپ جنت کے دروازوں میں بیچ کا دروازہ ہے اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اس کو ضائع کردے ایک موقعہ پر ایک صحابی رسول آکر آپ ﷺ کی خدمت میں شکایت کرنے لگے کہ میرے والد میرے مال سے خرچ کرنا چاہتے ہیں ایسے موقع پر میں کیا کروں آپﷺ نے جواب دیاتو او رتیرا مال تیرے والد ہی کے لیے ہے ۔ باپ کے سامنے اونچا نہ بولو ورنہ اللہ تعالی تم کو نیچا کردے گا یہاں پر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ والدین کی ناقدری وبائی شکل اختیار کرتی جارہی ہے والدین کی نافرمانی عام سی بات ہوگئی والدین کے ساتھ بد سلوکی اس حد تک عام ہوگئی کہ والدین کو گھر سے باہر نکالا جارہا ہے جس کے اثر سے اولڈ ہاؤس کی کثرت ہورہی ہے آپ ﷺنے جو علامات قیامت بیان کی تھیں کہ قرب قیامت میں والدین کی نافرمانی عام ہوگی خدا نے کسی کو تین چیزیں چھوڑنے کی اجازت نہیں دی ہے امانت ادا کرنے کی خواہ نیک آدمی کی ہو یا بدکاری کی عہد پورا کرنے کی خواہ نیک سے کیا ہو یا بد سے اور باپ کے ساتھ احسان و نیکی کرنے کی خواہ وہ نیک ہوں یا بداور باپ کے ساتھ نیکی کرو باپ کے ساتھ ر ہنے اور زندگی گزارنے میں جہاں تک ہوسکے نیکی کرو اور انہیں اس چیز کے مانگنے کی زحمت نہ دو کہ جس کی ان کو ضرورت ہے خواہ وہ مستغنی اور بے نیاز ہی ہوں اور قرآن مجید کی آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب تک تم اپنی محبوب چیزوں کو خرچ نہیں کروگے نیکی تک نہیں پہنچ سکو گے، تمہارے اوپر تمہارے باپ کا حق یہ ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ تمہاری اصل وبنیاد ہے اور تم اس کی شاخ ہو اگر وہ نہ ہوتے تو تمہارا وجود نہ ہوتا پس جب تم اپنے اندر کوئی ایسی چیز دیکھو کہ جو تمہیں خود پسندی میں مبتلا کردے تو اس وقت تم یہ خیال کروکہ اس نعمت کا سبب تمہارا باپ ہے اور اس پر خدا کا شکرادا کرو اور خدا کی طاقت کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمردراز کی جائے اور اس کے رزق کو بڑھادیا جائے اس کو چاہئے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کیا اس کے لئے خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں اضافہ فرمائیں گے اور اپنے ماں باپ کی بہت خدمت کرے اْن کے مرنے سے پہلے اگر اولاد گھر وغیرہ کے اخراجات کے لئے باپ کو رقم دیتی ہے تو اس کا صحیح استعمال ہونا چاہئے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کی فرمانبردای کرنے والا بنائے اور ہماری اولاد کو بھی ان حقوق کی ادائیگی کرنے والا بنائے والدین کے ساتھ حسن سلوک ایک نہایت ہی بنیادی حق اور اہم ترین فریضہ ہے اسی طرح ان کی خدمت وفرماں برداری بھی ایک بہترین اطاعت ہے یہی وجہ ہے کہ ربّْ العالمین نے والدین کے حقوق کو اپنے حقوق کے ساتھ بیان فرمایا ہے اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح معنوں میں والدین کی خدمت کی توفیق نصیب فرمائے اور ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے اور جن کے والدین اس دنیا سے چلے گئے ان کی اولاد کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین!
۔
جنت بھی والدین کے قدموں پہ ہو نثار
والدین نسلِ انسانی کی کلید ہیں۔ اولاد اور والدین کے مابين یہ عظیم رشتہ اور یہ محبت ازل سے ابد تک قائم و دائم ہے۔ تکلیف ایک کو ہو درد دوسرے کو محسوس ہوتا ہے۔ دکھ ایک کو پہنچے بے چین دوسرا ہوتا ہے۔ صدیاں گزرنے کے باوجود اولاد اور والدین میں یہ باہمی محبت اور خلوص نہ تو کم ہوا اور نہ ہی انحطاط پذیر ہوا۔ بچہ دنیا کے ایک کونے میں بیمار ہو تو والدین انجانے میں بھی دنیا کے دوسرے کونے میں تڑپ اٹھتے ہیں۔
خالقِ کائنات نے بھی والدین کی عظمت، رفعت، مرتبت ، حقوق بیان کئے اور والدین سے حسنِ سلوک کی وصیت کی:ووصیناالانسان بوالدیہ …… الخ ۔(سورۃ لقمان ،آیت 14)
’ اورہم نے انسان کواس کے والدین کے معاملے میں ہدایت کی۔ اس کی ماں نے دکھ پردکھ جھیل کراسے پیٹ میں رکھا اوردوسال میں اس کادودھ چھڑاناہوا کہ میرے اوراپنے والدین کے شکرگزاررہو۔‘
دوسری جگہ والد ین کے حق کو اللہ رب العزت نے قرآنِ کریم میں اپنی بندگی اورا طا عت کے فوراً بعد ذکر فرمایا ، یہ اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے ۔
وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَر…… الخ
ترجمہ : اور تیرے پروردگار کا یہ اٹل حکم ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آو ، اگر وہ تیری زندگی میں ضعیفی کو پہنچ جائیں ، چاہے ان میں ایک یا دونوں تو ان سے کبھی ”ہوں “ بھی مت کہنا اور نہ انھیں جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے با ت کر نا ، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ سرِتسلیم خم رکھنا اور دست بہ دعا رہنا :اے ہمارے پروردگار ! تو ان پر رحمت فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ سے محبت کی واضح دلیل وہ موقع تھا جب غزوہ بد رسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابواء اپنی والدہ محترمہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک پر حاضر ہوئے آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر متعجب ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :یہ ایک بیٹے کی طرف سے اپنی والدہ محترمہ کی جناب میں نذرانہ عقیدت و احترام ہے۔ان آنسووٴ ں کو کم حوصلگی یا تھڑ دلی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ توبے اختیار آنسو ہیں جو اس ”حرمِ محترم“ میں حاضری کا خراجِ عقیدت ہے ۔ یہ ماں کے ان قدموں میں، جن کے نیچے جنت ہوتی ہے، گلہائے عقیدت کے طور پر آنسووٴں کا گلدستہ ہے۔
اگر نبوت کی نظر میں ایک جگہ ماں کا یہ مقام ہے تو دوسری جگہ باپ کو نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کے دروازے سے تشبیہ دی۔
اسی طرح نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی رضا کو اللہ کی رضا اور والدین کی ناراضی کو اللہ کی ناراضی سے تعبیر فرمایا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق الوالدین کی ادائیگی پر جنت کے دو دروازے کھلنے کی بشارت اور نافرمانی پر جہنم کے دو دروازے کھلنے کی وعیدسنائی۔
گر ماں ناراض ہو تو صحابی کے بھی وقتِ نزع پر زباں پر کلمہ جاری نہیں ہوتا اور نبیِ پاک اسے زندہ جلانے کا حکم دیتے ہیں۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی عمر دراز کردے اور رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو تمہا ری اولاد تمھارے ساتھ حسن سلوک کرے گی۔
ایک آدمی آیا اور عرض کیا والدین کی وفات کے بعد بھی کوئی چیز ایسی ہے جس کے ذریعے ان سے حسن سلوک کروں؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا: ”ہاں! ان کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کر نا، ان کے بعد ان کی وصیت کو نا فذکر نا اور اس صلہ رحمی کو نبھا نا جو صرف ماں باپ کے تعلق کی وجہ سے ہو، ان کے دوستوں کا اکرام کر نا ۔“ ۔
ماں کی خوشنودی حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ کو مستجاب الدعوات بنادیتی ہے کہ نبی کریم بھی ان سے ملاقات کے خواہشمند ہوتے ہیں۔
والدین کی جدائی سے انسان کی زندگی میں اندھیرا چھا جاتا ہے، کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ دن بھی راتوں کی طرح سیاہ ہوجاتے ہیں ۔ جیسا کہ خاتونِ جنت نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت پر کہا:
صبت علی مصائب لو انھا
صبت علی الایام صرن لیالیا
bohot khob fozia ji well done keep it up
Khush bakht
Fouzia ji ap ki rareer waqie kable tareef ha
Bhutt khhoob foziaa, keep it up. Its really really nice.
very informative and knowledgeable