زباں تک جو نہ آئے وہ محبت اور ہوتی ہے
فسانہ اور ہوتا ہے حقیقت اور ہوتی ہے
نہیں ملتے تو ایک ادنیٰ شکایت ہے نہ ملنے کی
مگر مل کر نہ ملنے کی شکایت اور ہوتی ہے
یہ مانا شیشۂ دل رونقِ بازارِ الفت ہے
مگر جب ٹوٹ جاتا ہے تو قیمت اور ہوتی ہے
نگاہیں تاڑ لیتی ہےمحبت کی اداؤں کو
چھپانے سے زمانے بھر کی شہرت اور ہوتی ہے
یہ مانا حسن کی فطربہت نازک ہے اے وامقؔ
مزاجِ عشق کی لیکن نزاکت اور ہوتی ہے
(وامقؔ جونپوری)