علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال
پنجاب پاکستان موبائل نمبر0300-6491308
ویسے تو تمام راتیں ہی خدا نے بنائی ہیں مگر ان راتوں میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جن کو دوسری راتوں پر بڑی فضیلت حاصل ہے۔ مثلاًنزول قرآن کی رات ،آمد مصطفی ﷺکی رات ،عید الفطر کی رات، عید الاضحٰی کی رات اور ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ۔ان راتوں میں سے ایک رات پندرہ شعبان کی رات ہے جسے ’’شب برأت‘‘ کہتے ہیں ۔یہ رات بڑی فضیلت اور برکت کی حامل ہے ۔اس شب کی عظمت زبان رسول ﷺسے سنئے اور اس شب میں اعمال رسولﷺ کو ملاحظہ کرکے دنیا اور آخرت کی بھلائی حاصل کریں ۔
’’ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ میں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کو موجود نہ پایا تو میں باہر نکلی پس آپ بقیع (جنت البقیع قبرستان )میں تھے آپ ﷺ نے فرمایا کیا تجھے خدشہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول تجھ سے نا انصافی کریں گے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرا خیال تھا کہ آپ کسی اہلیہ کے گھر تشریف لے گئے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ (یعنی اس کی خصوصی رحمتیں )شعبان کی پندرہویں رات کو آسمان دنیا (نیچے والے آسمان )پر نازل ہوتی ہیں ۔ پس اللہ بنو کلب قبیلہ کی بکریاں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی بخشش فرماتے ہیں ۔ (ترمذی ، ابن ماجہ ، بیہقی ، مسند ابن ابی شیبہ )
شب برأت کن بد نصیبوں کی توبہ کے بغیر مغفرت نہیں ہو تی : بیہقی میں حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اور طبرانی میں حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات تجلی فرماتا ہے اور تمام مخلوقات کو بخش دیتا ہے ما سوأ مشرک او رمشاحن کے (مشاحن سے مراد کینہ رکھنے والے ، اسلام میں نیا فرقہ بنانے والا ، چغل خور ہے)۔
دیگر روایت میں کافر اور مشرک ومشاحن کے علاوہ والدین کا نافرمان ، شرابی ، سود خور ، تکبر سے تہبندٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا ، رشتہ داروں سے بد سلوکی کرنے والا ، قاتل ، زانی ، نجومی ، عشار (جو محکمہ ٹیکس میں ہو اور لوگوں پر ظلم کرتا ہو )،میوزک ، سارنگی ، طبلہ اور ڈھول بجانے والایعنی گانے بجانے والا ، ہمسایوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والا ،جادوگر اور شرطہ ، رشوت خور و ظالم سپاہی کا ذکر آیا ہے اور فرمان نبوی ہوا ہے کہ ان بخشش سے محروم لوگوں پر اللہ تعالیٰ شعبا ن کی پندرہویں رات کو نظر بھی نہیں فرماتا جب تک کہ یہ سبھی توبہ نہ کرلیں ۔
پندرہویں شعبان کا نام شب برأت کیوں؟حضرت غوث الاعظم سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے غنیۃ الطالبین میں اور دیگر مفسرین وآئمہ دین نے احادیث مبارکہ کے مضامین و مفاہیم کی روشنی میں پندرہویں شعبان کی رات کا نام شب برأت رکھا ہے ۔ برأت کا معنیٰ ہے دور ہونا ، نجات پانا وغیرہ۔ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس رات اللہ کے نیک بندے آخرت کی رسوائی وذلت سے دور کر دیئے جاتے ہیں اور بدبخت لوگ (یعنی جو اس رات کو اپنے گناہوں سے توبہ نہیں کرتے)اللہ تعالیٰ کی رحمتوں و مغفرتوں سے دور رکھے جاتے ہیں ۔ (غنیۃ الطالبین )
شب برأت کو سال بھر کے فیصلے فرشتوں کے سپر د کر دیئے جاتے ہیں:ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’فیھا یفرق کل امر حکیم‘‘ ’’اس رات ہر حکمت والے کا م کا فیصلہ کردیا جاتا ہے ۔ ‘‘(سورۃ دخان )
حضرت غوث الا عظم جیلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اکثر مفسرین کے نزدیک اس رات سے مراد شب برأت ہے ۔(غنیۃ الطالبین )
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ اس رات یعنی پندرہویں شعبان کو کیا ہوتا ہے ۔ عرض کیا ! اے اللہ کے رسول اس میں کیا ہوتا ہے ؟فرمایا !’’اس سال میں جس بچے نے پیدا ہونا ہے اس رات وہ لکھا جاتا ہے اور اس سال میں جس نے وفات پانی ہے اس رات اسے لکھا جاتا ہے اور اس رات (سال بھر کے )اعمال اُٹھائے جاتے ہیں اور(سال بھر کا ) رزق نازل کیا جا تا ہے ۔‘‘(رواہ البیہقی )
ایک روایت میں اُ م المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا!چا رراتوں میں اللہ تعالیٰ خیر وبرکت کی بارش فرماتے ہیں ۔ عید الاضحی کی رات ، عید الفطر کی رات ، پندرہویں شعبان کی رات اس رات اللہ تعالیٰ کاموں (اور بالخصوص موتوں )کے اوقات اوررزق لکھ دیتا ہے اور اس سال حج کرنے والوں کولکھ د یتا ہے اور عرفہ یعنی یوم الحج کی رات ان راتوں میں خیر و برکت کی برسات اذان فجر تک جاری رہتی ہے ۔ (غنیۃ الطالبین )
حضرت عطا ابن یسار سے روایت ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں رات آتی ہے تو ملک الموت کو ایک کتاب دی جا تی ہے اور کہا جاتا ہے جن کے نام اس کتاب میں ہیں ان کی روحیں قبض کرو بندہ باغات لگا رہا ہوتا ہے ، شادیاں کر رہا ہوتا ہے اور عمارتیں تعمیر کر رہا ہوتا ہے (اور اسے معلوم نہیں ہوتا )کہ اس کا نام مرنے والوں میں لکھ دیا گیا ہوتا ہے ۔ (ما ثبت با لسنۃ)
احادیث بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ شب برأت رحمتوں بخششوں اور مغفرتوں کی رات ہے کچھ بدنصیب ایسے ہیں جن کی مغفرت اس بخشش بھری رات میں بھی نہیں ہوتی جب تک کہ وہ سچی توبہ نہ کرلیں ۔ اللہ تعالیٰ اس رات فرشتوں کو سال بھر کے اہم اُمور کا پروگرام دے دیتے ہیں چونکہ بسا اوقات اللہ تعالیٰ اپنے لطف وکرم سے اپنی قضاؤں میں تبدیلی بھی فرمادیتے ہیں لہٰذا بندوں کو چاہیے کہ اس رات اللہ تعالیٰ سے دنیا وآخرت کی خیرات وبرکات کا سوال کریں اور رب غفور و رحیم کی بارگاہ میں دنیاو آخرت کے مصائب وآلام سے نجات کا سوال کریں ۔
شب برأت کے معمولات :ویسے تو تمام عبادات اور تمام کلمات طیبات برکت و رحمت اور ثواب کا ذریعہ ہیں لیکن اس مبارک رات میں درج ذیل معمولات نبی اکرم ﷺصحابہ کرام اور بزرگان دین سے ثابت ہیں ۔
15شعبان کا روزہ سنت ہے : پندرہویں شعبان کے روزے کے بارے میں حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں تاریخ آئے تو رات کو شب بیداری اختیار کرو اور دن کو روزہ رکھو بیشک اللہ تعالیٰ یعنی اس کی رحمت غروب آفتاب کے وقت نیچے والے آسمان پر نزول فرماتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ ہے کوئی بخشش مانگنے والا اسے بخش دوں ، ہے کوئی رزق مانگنے والا اسے رزق دوں ، ہے کوئی عافیت و سلامتی مانگنے والا کہ اسے عافیت و سلامتی دوں ،ہے کوئی ایسا ہے کوئی ایسا حتیٰ کہ صبح صادق طلوع ہو جاتی ہے ۔ (ابن ماجہ ، بیہقی )
اس رات میں قبر ستان جا نا سنت ہے : پندرہویں شعبان کی شب نبی اکرم ﷺ جنت البقیع قبر ستان میں تشریف لے گئے جیسا کہ حدیث اُ م المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا میں اس کا واضح ذکر موجود ہے لہٰذا شب برأت پر قبر ستان جا نا بھی سنت نبوی ہے ۔ نیز دیگر احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر سال شہدأاحد کی قبروں پر تشریف لے جاتے اہل قبور کو سلام فرماتے اور دعا فرماتے نیزمسلمانوں کو حکم دیا کہ اہل قبور کو سلام کہو بلکہ سنن بیہقی میں ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت مصعب ابن عمیر رضی اللہ عنہ کی قبر پرکھڑے ہو کر فرمایا !جو بھی انہیں سلام کہے گا یہ قیامت تک اس کا جواب دیں گے ۔ اے مسلمانوں ! تم انہیں سلام کہو اور انکی زیارت کرو۔ ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ! ’’کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزوروھا فانھا تذکر الاخرۃ۔‘‘’’میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کرتا تھا اب تم قبروں کی زیارت کرو کیونکہ یہ عمل آخرت کی یاد دلاتا ہے ۔
نیز صحابہ کرام سے ثابت ہے کہ وہ مشکل حالات میں قبر نبوی پر حاضری دیتے تھے اور اولیاء امت کے معمولات سے اہل قبور سے فیوض وبرکات کا حاصل کرنا ثابت ہے جیسا کہ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے قطب الاولیاء حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر چلہ کیا اور انواع واقسام کے فیوض وبرکات حاصل کئے اور پھر اپنے تاثرات یوں بیان فرمائے۔
گنج بخشِ فیض عالم مظہرِ نور خدا
ناقصاراں پیر کامل کاملاراں رہنما
شب برأت کو ایک اور عمل نبوی :حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں حضور ﷺ نے پندرہویں شعبان کو دو رکعت نفل پڑھے دوسری رکعت میں آپ نے لمبا سجدہ کیا جو فجر تک جاری رہا ۔ مجھے خدشہ ہوا کہ حضور ﷺکہیں حالت سجدہ میں وصال تو نہیں فرماگئے میں نے آپ کے پاؤں کو ہاتھ لگایا تو حرکت فرمائی اور میں نے آپ سے حالت سجدہ یہ کلمات سنے ۔ ’’اعوذبعفوک من عقابک واعوذبرضاک من سخطک واعوذ بک منک جل ثناؤک لا احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک ‘‘نماز سے فارغ ہو کر حضور نے مجھے فرمایا ان کلمات کو یاد کرلو اور دوسروں کو ان کی تعلیم دو۔‘‘(غنیۃ الطالبین )
نوافل نبوی :اس حدیث پاک کی رو سے شب برأت کو کلمات مذکورہ کاورد اور خاص طور پر حالت سجدہ میں سنت نبوی ہے ۔ سنن بیہقی میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس رات کو 14رکعت نفل پڑھے اور ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ 14بار ،قل شریف 14بار ، سورۃ فلق 14بار، سورۃ الناس 14بار ، آیت الکرسی 1باراور آیت :’’لقد جائکم رسول من انفسکم ‘‘آخر تک ۔ایک بار پڑھی پھر فرمایا جو اس طرح کرے گا اسے 20حج مبرور،20سال کے مقبول روزے کا ثواب ملے گا ۔ اور جو آئندہ دن روزہ رکھے گا اسے 120سال کے روزوں کا ثواب ملے گا ۔
صلوٰۃ الخیر :غنیۃ الطالبین میں حضرت غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شب برأت کو صلوٰۃ خیر ایک سو رکعت نوافل اور ہر رکعت میں دس بار قل شریف پڑھنا حضرت امام حسن بصری سے روایت ہے فرماتے ہیں مجھے تیس صحابہ کرام نے بتایا کہ جو شخص اس رات کو صلوٰۃ الخیر پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر ستر بار نظر کرم فرمائے گا اور ایک بار نظر کرم سے اس کی ستر حاجتیں پوری فرمائے گا ۔ جن میں کم از کم ایک حاجت گناہوں کی بخشش ہے ۔
گناہوں سے توبہ اور حقوق العبا د کا تدارک :احادیث بالا کے مطابق شب برأت کو سال بھر کے اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں ۔ لہٰذا شب برأت کو مغرب سے پہلے پہلے والدین بھائیوں اور بہنوں، رشتہ داروں اور دیگر لوگوں سے اپنی زیادتیوں کی معافی مانگ لینی چاہئے اور اگر کسی کا کوئی حق ذمہ میں ہو تو اس کی ادائیگی کرلینی چاہئے یا پھر صاحب حق سے معافی مانگ لینی چاہیے تاکہ اعمال جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوں تو بندوں کے ساتھ زیادتیوں کے گنا ہ دھل چکے ہوں ۔
ارکان توبہ :اس طرح اس شب رب غفورالرحیم سے اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگ لینی چاہئے توبہ کے لئے چا رچیزیں ضروری ہیں ۔(1) رب کریم کی بار گاہ میں گناہوں کا اعتراف ۔ (2)گناہوں پر سخت ندامت اور آہ وزاری ۔ ( 3)آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ اور سچا وعدہ ۔(4)گنا ہ کی تلافی مثلاََنمازیں نہیں پڑھیں تو حساب یا اندازے سے با لغ ہونے کے بعد کی تمام فرض اور واجب نمازیں قضا کریں اس طرح رمضان کے روزوں کی قضا کرے ا س نے جتنے برس زکوٰۃ ادا نہیں کی حساب یا اندازے سے زکوٰۃ اداکرے ۔ حدیث نبوی ہے :’’التائبُ من الذنب کمن لا ذنب لہ‘‘’’جو شخص (شرع شریف کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطا بق) تو بہ کرنے والا ہے وہ ایسا ہے جیسا کہ اس نے کوئی گنا ہ نہیں کیا ۔‘‘ لہٰذا شب برات کے موقع پر تمام گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے اور فوت شدہ عبا دات کی قضا کا پختہ اِرادہ کر لینا چاہیے۔
شب برأت کو غیر شرعی رسوم کا رواج: اس رات برصغیر کے مسلمانوں میں آتش بازی کی بری رسم را ئج ہے شیخ المحققین حضرت سیدنا عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آتش بازی بدعت سۂ ہے ۔ مفتی اعظم حضرت سیدابو البرکات رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آتش بازی سخت حرام ہے اور مسلمان کو چاہئے کہ یہ پیسہ صدقہ و خیرات کی صورت میں غرباء ومساکین پر خرچ کریں ۔
راقم الحروف کے نزدیک درج ذیل وجوہات کی بنا پر آتش بازی حرام ہے جو والدین اور ذمہ دار حضرات آتش بازی سے نہیں روکتے وہ سخت گنا ہ گار ہیں ۔ آتش بازی کھلا اسراف و فضول خرچی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے !’’ان المبذرین کانو اخوان الشیطین ‘‘’’بیشک بغیر کسی غرض پیسہ ضائع کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں ۔‘‘(اسراء