بھکارن کی جھولی میں حج کا تحفہ

(عنقریب منظر عام پر آنے والے میرے سفرنامہ حج ”بازدید حرم“ کا ایک باب)
سہیل انجم

ایک بار نماز فجر سے کچھ پہلے ہم تہجد پڑھ کر مطاف میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمارا عام طور پر معمول تھا کہ طواف کے بعد باب فتح بورڈ کے نیچے آجاتے۔ وہاں بھیڑ نسبتاً کم ہوتی ہے۔ وہیں سنت طواف پڑھتے اور پھر وہیں نماز تہجد اور فجر پڑھتے۔ ہمارے برابر میں پینتیس چالیس سال کے ایک باریش شخص بھی تہجد پڑھ رہے ہیں۔ ہماری نماز تو بہت جلد ختم ہو گئی مگر وہ طول طویل رکعتیں پڑھتے جا رہے تھے۔ لمبے لمبے رکوع اور لمبے لمبے سجدے۔ کافی دیر کے بعد جب وہ فارغ ہوئے تو انھوں نے ہماری طرف اپنا چہرہ گھما کر سلام کیا، خیریت پوچھی، ہمارا نام اور وطن پوچھا اور باتیں کرنے لگے۔ اثنائے گفتگو معلوم ہوا کہ ان کا نام محمد عامر سرکی ہے اور وہ کراچی پاکستان کے باشندہ ہیں۔ دونوں نے باتوں باتوں میں ایک دوسرے کو بتایا کہ کون کتنی بار یہاں حاضری دے چکا ہے۔
انھوں نے ایک بڑا حیرت انگیز واقعہ سنایا۔ اس واقعہ سے اس بات پر یقین اور پختہ ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کب کس کو کس انداز سے نواز دے کہا نہیں جا سکتا۔ اگر انھوں نے یہ واقعہ مطاف میں نہ سنایا ہوتا تو شاید مجھے کچھ شبہ ہوتا۔ لیکن خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھ کر کس کی جرات ہوگی کہ وہ دروغ گوئی یا مبالغہ آرائی کرے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی حج کرنے کی بڑی تمنا تھی۔ وہ کئی سال سے کوشش کر رہے تھے لیکن منظوری نہیں مل رہی تھی۔ اچانک منظوری مل گئی۔ ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ ان کے گھر کے راستے میں ایک بھکارن بیٹھتی تھی۔ اس سے ان کی سلام دعا ہو گئی تھی۔ یہ اس کی خیریت وغیرہ دریافت کیا کرتے اور کبھی کبھار اس سے باتیں بھی کر لیتے۔ انھوں نے جا کر اس کو یہ خوش خبری سنائی اور کہا کہ میں حج کرنے جا رہا ہوں۔ اس نے ان سے کہا کہ تجھے اللہ نے بلایا ہے تو جا، میرے لیے وہاں سے ایک تسبیح لیتے آنا۔ انھوں نے کہا کہ ارے تسبیح کی کیا بات کرتی ہو، لو میری تسبیح لو اسی پر پڑھتی رہو، اللہ نے چاہا تو تم بھی حج کر لوگی۔
خیر وہ حج پر آگئے اور جب واپس وطن پہنچے اور اس کے پاس جا کر کہا کہ دیکھ میں حج کرکے آگیا ہوں تو اس نے کہا کہ تو کیا ہوا۔ تو سمجھتا ہے کہ صرف تو نے حج کیا ہے۔ میں بھی حج کرکے آئی ہوں۔ انھوں نے حیرت و استعجاب کی نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو اس نے بتایا کہ تیرے جانے کے بعد میں اس تسبیح کو لے کر رات بھر روتی رہی۔ صبح ہو گئی۔ اگلی رات پھر روتی رہی۔ اسی طرح میں تین راتیں روئی اور اللہ سے دعا کرتی رہی کہ یا اللہ تو مجھے حج کرا دے۔ میری ایک بہن تھی جس کا انتقال ہو چکا ہے۔ اس کا بیٹا اچانک پہلی بار میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ خالہ میں تمھارے پاس اس لیے آیا ہوں کہ میں تمھیں حج کرانا چاہتا ہوں۔ اس طرح اس نے ساری کارروائی مکمل کرائی اور اس نے مجھے اللہ کے حکم سے حج کرا دیا۔
ہم نے محمد عامر سرکی سے پوچھا کہ کیا اس بھکارن کی کوئی ایسی نیکی تھی جس کا بدلہ اللہ نے اس طرح دیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ یتیم بچوں کا بڑا خیال رکھتی ہے۔ اسکول میں ان کی فیس جمع کرتی ہے اور انھیں کھلاتی پلاتی ہے۔ ہم نے کہا کہ اس کی اس نیکی نے اسے اچانک دنیا کی سب سے بڑی دولت سے نواز دیا۔
محمد عامر سرکی نے یہ بھی بتایا کہ جب وہ پہلی بار یہاں حاضر ہوئے تھے تو اظہار تشکر میں اس قدر روئے تھے کہ کئی دنوں تک دونوں آنکھوں کے نیچے کی نسیں دکھتی رہیں۔
آنکھیں اشک بار، قدم لرزیدہ لرزیدہ
ایک رات غالباً نماز عشا کے بعد ہم لوگ طواف کے لیے پہنچے۔ ہم لوگوں کا معمول تھا کہ باب السلام پر بس سے اترتے اور باب اسماعیل سے حرم میں داخل ہوتے۔ باب اسماعیل سے داخل ہونے کی کئی وجوہات تھیں۔ ایک تو سعی کی راہداری کو کراس نہیں کرنا پڑتا۔ دوسرے فوری طور پر زینہ یا اسکیلیٹر کا استعمال نہیں کرنا پڑتا۔ تیسرے باب اسماعیل کے کافی کشادہ ہونے کی وجہ سے وہاں بھیڑ کم ہوتی ہے۔ چوتھے گیٹ سے ہی کعبہ نظر آتا ہے۔ پانچویں مطاف میں پہنچتے ہی تھوڑا سا دائیں جانب چلنے کے بعد وہ مقام آجاتا ہے جہاں سے طواف کی ابتدا کی جاتی ہے۔ ہم دائیں جانب جانے کے لیے مڑے تو ایک ادھیڑ عمر شخص پر نظر پڑی جو خانہ کعبہ کی طرف دیکھے جا رہا ہے اور دہاڑیں مار مار کر رو بھی رہا ہے۔ اس عمل میں اس کی کمر قدرے خم ہو جاتی ہے۔ وہ پھر سیدھا ہوتا ہے اور پھر بآواز بلند رونے لگتا ہے۔ پھر جھک جاتا ہے پھر سیدھا ہو جاتا ہے۔ فوراً ہمارے دل میں خیال آیا کہ خانہ کعبہ کے دیدار کی اس کی حسرت شاید پہلی بار پوری ہو رہی ہے اور وہ اس خوش نصیبی پر خود کو سنبھال نہیں پا رہا ہے۔ ذرا سوچیے کہ اگر کسی چیز کے پانے کی شدید تمنا بچپن سے ہی دل میں مچلتی رہی ہو اور وہ ادھیڑ عمر میں جا کر پوری ہو تو اس شخص کی خوشیوں کا کیا ٹھکانہ ہوگا۔ کچھ انہی کیفیات سے شاید وہ شخص بھی گزر رہا تھا اور اسی لیے وہ جذبات او راحساس تشکر سے مغلوب ہو گیا تھا۔
ایک بار طواف کے دوران تقریباً چالیس پینتالیس سال کے ایک شخص کو دیکھا جو کہ ہم سے کچھ دوری پر ہی چل رہا تھا، عجیب و غریب کیفیت میں مبتلا ہے۔ وہ دائیں جانب رخ کرکے یعنی خانہ کعبہ کی جانب سر کا پچھلا حصہ کیے ہوئے روئے جا رہا ہے، روئے جا رہا ہے۔ اس کا چہرہ اشک آلود ہے اور اس کی آواز رندھی ہوئی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے وہ کافی دیر سے رو رہا ہے۔ روتے روتے نڈھال ہو گیا ہے۔ اس کی کیفیت بالکل کسی اس دیہاتی خاتون جیسی ہو گئی ہے جو اپنے جوان بیٹے کی موت پر بآواز بلند روتے روتے تھک کر چور ہو گئی ہو لیکن پھر بھی رونا بند نہ کرے۔ وہ شخص جس کیفیت میں مبتلا تھا اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
کچھ ناپسندیدہ حرکتیں
ایک بار رات میں بارہ ایک بجے کے وقت طواف کے دوران ہماری نظر سبز دستاروں والے ایک گروہ پر پڑی۔ سب بآواز بلند دعائیں پڑھ رہے تھے۔ جب ذرا غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے آگے آگے چل رہے ایک ساٹھ پینسٹھ سال کے بزرگ کی کاغذ سے دیکھ کر پڑھی ہوئی دعاوں کو دوہرا رہے ہیں۔ عجیب بات یہ تھی کہ صرف وہی سبز دستار میں نہیں تھے۔ وہ بلا مبالغہ آدھی فٹ اونچی ٹوپی زیب سر کیے ہوئے تھے جو بالکل سفید براق تھی اور خوب استری کی ہوئی لگ رہی تھی۔ ان کا قد بھی ماشاءاللہ چھ فٹ سے زیادہ رہا ہوگا۔ ایک بار ہم اس غول کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے کہ اچانک لوگ کھڑے ہو گئے۔ جو ذرا غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہی طویل القامت حضرت طواف کے دوران کھڑے ہو کر ہاتھ ہلا ہلا کر بآواز بلند تقریر فرما رہے ہیں اور ان کے ساتھی اسے بہت غور سے سن رہے ہیں۔ باقی دوسرے لوگ بھی کھڑے ہونے پر مجبور ہیں۔ اتفاق سے اگلی رات بھی اس گروہ سے سامنا ہو گیا۔ البتہ اس کے بعد پھر وہ لوگ نظر نہیں آئے۔ ان کو اس کا احساس نہیں تھا کہ ان کے اس عمل سے لوگوں کو کتنی دشواری ہو رہی ہے۔
طواف کے دوران مرد و خواتین ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ البتہ سب عموماً ایک دوسرے سے اختلاط سے بچتے ہیں۔ اگر کسی کا جسم کسی سے بلا ارادہ مس بھی ہو گیا تو وہ اپنے دل و دماغ میں کوئی برا خیال نہیں آنے دیتا اور پھر کوشش کرتا ہے کہ دوبارہ ایسا نہ ہو۔ لیکن ہم نے بہت سے نوجوانوں اور بزرگوں کو بھی اس معاملے میں اس قدر حساس دیکھا کہ ان کی حساسیت دوسروں کے لیے باعث تکلیف ہو جاتی ہے۔ ایسے مناظر بارہا سامنے آتے ہیں کہ بیوی آگے آگے اور شوہر پیچھے پیچھے ہے۔ لیکن شوہر نے اپنے دونوں بازووں سے اس کے دائیں اور بائیں ایسا حصار بنا رکھا ہے کہ مجال کیا کہ کوئی اس کے قریب بھی آسکے۔ اگر کوئی شخص بلاارادہ اور دھکا مکی کی وجہ سے قریب پہنچ گیا تو وہ پوری طاقت سے اس شخص کو اپنے بازووں سے دھکا دیتے ہیں۔ ایسے میں قریب آنے والا شخص بعض اوقات اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے۔ جب ایسے کئی مناظر ہماری نگاہوں کے سامنے آچکے تو ہم سے رہا نہیں گیا اور ہم نے ایسے ہی ایک نوجوان سے کہا کہ اگر کسی نامحرم کے مس ہو جانے کا اتنا ہی خطرہ ہے تو آپ یا تو بالکل کنارے کنارے چکر لگائیں یا پھر اس سے بھی محفوظ جگہ چھت پر ہے وہاں چلے جائیں۔ ہماری یہ بات سن کر ایک دوسرا نوجوان مسکرانے لگا مگر اس شخص پر شاید کوئی اثر نہیں پڑا۔
ایک بار ہمارے سامنے افریقیوں کا ایک گروہ چل رہا تھا۔ ان میں ایک تقریباً بیس سال کا نوجوان بھی تھا جو بڑا ہی وجیہ اور خوبصورت تھا۔ ہمارے برابر میں دو چار لوگ غالباً ترک یا عراقی تھے۔ اچانک آگے کوئی رکاوٹ ہوئی اور لوگ کھڑے ہو گئے۔ ہمارے برابر چلنے والوں میں سے ایک نے جو دیکھنے میں اجڈ لگ رہا تھا، مذکورہ نوجوان کے کندھے پر زور سے دھکا دیا اور اشارہ کیا کہ آگے بڑھو۔ آگے گنجائش ہی نہیں تھی وہ بے چارہ بڑھتا کہاں سے۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس نے نوجوان کو پہلے سے بھی زیادہ قوت کے ساتھ دھکا دیا۔ بالکل ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس کی اس سے کوئی دشمنی ہو۔ اس بار نوجوان کو تاو آگیا۔ اس نے پلٹ کر اس کو پکڑنا چاہا۔ اس کے ساتھی جوان بھی مذکورہ شخص کی جانب لپکے۔ یوں لگ رہا تھا کہ بس اب وہ لوگ گتھم گتھا ہونے والے ہیں۔ اسی دوران کسی بھلے شخص نے ان کو الگ الگ کیا اور پیچھے والے شخص کو تھوڑی دیر تک روکے رکھا۔

sanjumdelhi@gmail.com

اپنا تبصرہ لکھیں