در نایاب
کافی عرصے سے میں اس کوشش میں لگی ہوں کہ اخر وہ کیا چیز ہے جو میری نماز میں رکاوٹ بنتی ہے اور میں نماز میں خشوع نہیں پیدا کر پاتی۔ میری نماز ویسی نہیں جیسی نماز پڑھنی چاہیں۔
محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز کو اپنی انکھوں کی ٹھنڈک کہتے تھے۔
میں سوچتیہوں ویسی نماز میں کب پڑھ سکوں گی۔ مجھے سمجھ ہی نہیں اتی تھی کہ نماز میں روح کیسے ڈالوں۔
یہ سوچتی رہی پھر ایک خیال ایا نماز میں سب سے ذیادہ کیا بات سامنے اتی تو سوچنے پر پتہ چلا کہ روزمرہ کی بےکار باتیں یا ڈراموں کے سینسز یا اداکاروں کی باتیں وغیرہ
ٹی وی دیکھنا چھوڑا۔
مگر پھر بھی نماز بہتر نہ ہوئی۔
پھر ایک دن نماز میں ہی مجھے خیال ایا کہ میں امانتوں کی حفاظت نہیں کرتی میں وعدوں کا خیال نہیں رکھتی۔
نماز ختم کی تو خوب سوچا اور نتیجے پر پہنچی کہ ہاں یہی تو میرا اصل مسلئہ ہے۔
مجھے وعدے نبھانے نہیں اتے اور مجھے راز رکھنے نہیں اتے،
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ منافق کی تین خصلتیں ہیں
وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے
امانت دی جائے تو خیانت کریں
بات کریں تو جھوٹ بولے
کسی ایک میں ایک بھی خصلت موجود ہو وہ منافق ہے
اور منافق پر نماز بھاری ہوتی ہے۔
دن میں کتنی دفعہ ہم مذاق مذاق میں وعدہ خلافی کر جاتے ہمیں احساس تک نہیں ہوتا، ہم امانتوں میں خیانت کر جاتے ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا۔ اور پھر کیا ہوتا ہماری نماز صحیح نہیں ہوتی نماز میں دل نہیں لگتا۔
اگر نماز میں دل نہ لگے تو ہمیں اپنی روزمرہ کے کاموں پر دھیان دینا چاہئے کہ ہم سے غلطی کہاں ہوئی ہے۔
جب ہم اپنی غلطیوں کی پرواہ نہیں کرتے تو اندر سے غلطیوں کی اصلاح کرنے والی اواز بند ہو جاتی ہے۔
امانت صرف یہ نہیں ہوتا کہ کسی نے اپکو کوئی چیز بطور امانت رکھنے کو دی ہو۔
کسی کا راز، کسی کی معمولی بات کسی اور سے کہنا، کسی کا پردہ نہ رکھنا، یہ سب امانت میں اتے ہیں۔
اللہ تعالی ہمیں رشد و ھدایت عطا کرے اور ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح کی توفیق عطا کرے
آمین