فضائل اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

آپ کا وصال 13یا 17رمضان المبارک کو ہوا
(علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایم اے سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال)
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک عظیم باپ کی بیٹی تو ہیں ہی مگر امام الانبیاء ﷺ کی معتمدترین رفیقہء حیات ہونے کی حیثیت سے جہاں عظمت وفضیلت میں منفرد ہیں وہاں مظلومیت میں بھی سب سے زیادہ آپ کو حاسدین کی سازشوں کا نشانہ بننا پڑا۔
ذرا اس منظر کو اپنی آنکھوں کے سامنے لائیے اور اس موقعہ کا تصور کیجئے کہ جب صدیقہ ء کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہا صرف اتنا کہہ کر خاموش ہو گئی تھیں کہ ”اشکو ابثی و حزنی الی اللّٰہ“ یعنی میں اپنا دردِدل علیم بذات الصدور کو سنا چکی ہوں۔“ یہی وہ مرحلہ تھا جب عرشِ بریں سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عفت وپاکیزگی کا اعلان ہوا۔
”الخبیث للخبیثین والخبیثون للخبیثت والطیبت للطیبین والطیبون للطیبت۔“”گندیاں گندوں کے لئے اور گندے گندیوں کے لئے اور ستھریاں ستھروں کے لئے اور ستھرے ستھروں کے لئے۔“
صدیقہ ء کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کیس میں خود اللہ تعالیٰ نے وکیل صفائی کی حیثیت سے جرح کرتے ہوئے فرمایا!
ناپاک عورتیں تو ناپاک مردوں کے لئے جس طرح ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لئے ہوا کرتے ہیں اسی طرح پاک عورتیں پاک بازمردوں کے لئے اور پاک بازمرد پاک باز عورتوں کے لئے ہوا کرتے ہیں اور حج کی حیثیت سے فیصلہ صادر فرماتے ہوئے کہا!
” اُولٰٓءِک مُبَّرَءُ وْنَ مِمَّا ےَقُوْلُوْنَ۔“ یعنی یہ ان تمام آلودگیوں سے پا ک اور باعزت بری ہیں اور اس الزام تراشی کے باعث ان کو جس اذیت وپریشانی سے گزرنا پڑا ا س کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا! ”لھم مغفرۃ و رزق کریم“”ان کے لئے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔“
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حلقہ ء ازواجِ مطہرات رضوا ن اللہ تعالیٰ عنھن اجمعینمیں فخر یہ کہا کرتی تھیں کہ صرف میں پیغمبر ﷺ کے گھرکنواری کی حیثیت سے آئی ہوں میں نے ہی جبرائیل امین کو اپنی آنکھوں سے دیکھا مجھے کئی مرتبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام آئے میرے بستر پر خدا کا قرآن اُترا اور میرا حجرہ رسول اللہ ﷺ کی آخری آرام گاہ بنا(جواب گنبد خضریٰ ہے)اور حضرت یوسف علیہ السلام پر جب الزام لگا تو ایک بچہ وکیل بنا،حضرت موسیٰ علیہ السلام پر الزام لگا تو ایک عورت صفائی میں بولی،حضرت مریم علیہ السلام پرالزام لگا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام وکیل صفائی بنے مگر جب میری (حضرت عائشہ صدیقہ ؓ)کی باری آئی تو خود رب ذوالجلال میرا وکیل صفائی بن گیا۔
حضرت یوسف علیہ السلام،حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر انسانوں نے الزام لگایا اور انسانوں نے ہی صفائی دی۔مگر رسول عربی برگزید ۂ کائنات ﷺ کی حمیر ا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کامقدر تو دیکھئے کہ الزام انسانوں نے لگایا صفائی رحمن نے دی۔فرش پر الزام لگایا،عرش سے اعلان برأت ہوا۔یعنی ہے سورۃ نور جن کی گواہ ان کی پر نور صورت پہ لاکھوں سلام۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بے مثال عالمہ فقیہہ اور فاضلہ تھیں۔حضور انور ﷺ سے بہت سی احادیثِ مبارکہ روایت فرمائیں،تاریخ عرب پر بڑی خبر تھی، اشعار ِ عرب پر بڑی نظر تھی۔
”خلاصہ تہذیب“ میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دو ہزار دو سو دس احادیث مبارکہ مروی ہیں جن میں ایک سو چوہتر متفق علیہ ہیں۔یعنی بخاری شریف اور مسلم شریف دونوں کی روایات اور چون ۴۵ احادیث مبارکہ صرف بخاری شریف کی ہیں۔اڑسٹھ احادیث مبارکہ صرف مسلم شریف کی۔ (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فضائل کی چند احادیث مبارکہ)
حد یث نمبر1: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی دوسرے کھانوں پر۔
حد یث نمبر2: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اصحابِ
رسول ﷺکو جب بھی کوئی مشکل مسئلہ پیش آتا تھا اور ہم حضرت عائشہ صدیقہ رضی تعالیٰ عنہا سے دریافت کرتے تھے تو ان کے پاس اس کا حل بھی ہمیں ضرور مل جاتا تھا۔ (ترمذی شریف)
حدیث نمبر3: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! ”تو مجھے خواب میں تین دفعہ دکھائی گئی فرشتہ تجھے ریشم کے کپڑے میں لپٹیی ہوئی لایا اور کہا کہ یہ آپ ﷺ کی اہلیہ ہیں۔میں نے تیرے چہرے سے کپڑا اٹھا کر دیکھا تو واقعۃً تو ہی تھی پس میں نے کہا کہ اگر یہ منجانب اللہ تعالیٰ مقدر ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو پورا کر دیں گے۔
حدیث نمبر4: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی باری کے دن ہدیہ (تحفے)بھیجنے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے جس سے ان کا مقصود آنحضرت ﷺ کی رضا جوئی تھا۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کی ازواجِ مطہرات کی دو جماعتیں تھیں۔ایک میں حضرت عائشہ ؓ، حفصہ،صفیہ اور سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن تھیں۔اور دوسرے گروہ میں حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور باقی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن تھیں۔حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی جماعت نے ان سے کہا کہ آنحضرت ﷺ سے اس سلسلہ میں بات کیجئے کہ آپ ﷺصحابہ کرام رضوا ن اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو حکم فرمائیں کہ آپ ﷺ جس گھر میں بھی ہوں آپ کے لئے ہدیہ (تحائف)بھیجے جائیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی باری کے د ن کا بطور خاص اہتمام نہ کیا جائے۔چنانچہ اس قرار داد کے مطابق حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آنحضرت ﷺ سے گفتگو کی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ مجھے عائشہ ؓ کے بارے میں ایذا نہ دو کیونکہ سوائے عائشہ ؓ کے لحاف کے اور کسی بیوی کے لحاف میں میرے پاس وحی نہیں آئی۔اُم سلمہ ؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ میں آپ کی ایذا دہی سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں۔پھر ان ازواجِ مطہرات نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھیجا توآپ ﷺ نے فرمایا! بیٹی کیا تم اس سے محبت نہیں رکھتی جس سے میں محبت رکھتا ہوں۔عرض کیا ”ضرور“ فرمایا پس اس سے محبت رکھو۔
حضرت شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ صدیقہ ؓکے فضائل حد وشمار سے باہر ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فقہا ؤعلماء وفصحاء وبلغاء اکابر صحابہ میں سے تھیں۔بعض سلف سے منقول ہے کہ احکام شرعیہ کا فیصلہ کرنے کے لئے ان کی طرف رجوع کرنا معلوم ہوا ہے اور احادیث مبارکہ میں آیا ہے کہ!
حدیث نمبر5: ”تم اپنے دو تہائی دین کو ان حمیرا یعنی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حاصل کرو۔“ صحابہ کرام وتابعین کی جماعت ِکثیرہ نے ان سے روأیتیں لی ہیں۔
حدیث نمبر6: عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا ”میں نے کسی کو معانی قرآن، احکام حلال وحرام،اشعار ِعرب اور علم النساب میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے زیادہ عالم نہیں دیکھا۔“
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اعظم فضائل ومناقب میں سے ان کیلئے حضور اکرم ﷺ کا بہت زیادہ محبت فرمانا ہے۔حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا اسلام میں سب سے پہلی محبت جو پید ا ہوئی وہ حضور اکرم ﷺ کی محبت حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے ہے۔
سرکار دو عالم ﷺ سے صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین)نے عرض کیا کہ آقاؐ آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے فرمایا! عائشہ ؓ، پھر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کو آدمیوں (لوگوں) میں سے کون محبوب تر تھا۔فرمایا فاطمہ ؓ پھر لوگوں نے پوچھا مردوں میں سے کون؟ فرمایاان کے شوہراللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ ان میں تطبیق اس طرح ممکن ہے کہ ازواجِ مطہرات میں محبوب تر سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ ا ور اولاد ِ پاک میں محبوب تر سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ اور اہل بیت میں سے محبوب تر حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اصحاب میں سے محبوب تر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
شیخ محقق حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں کہ!”حدیث دیگر آمدہ کہ از فاطمہ پر سید ندکہ ازآدمیاں کہ دوست تر بو برسول مقبول ﷺ فرمود عائشہ! گفتند از مردماں فرمود ند پدر شریف دے“۔ ترجمہ: دوسری حدیث میں آیا ہے کہ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا گیا کہ حضور اکرم ﷺ کو کس سے زیادہ محبت تھی۔سیدہ نے فرمایا حضرت عائشہ ؓ سے انہوں نے پھر پوچھا کہ مردوں میں سے فرمایا”ان کے والد شریف (صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ)سے۔“
اب ان روأیتوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان حضرات کی آپس میں کس قدر مہر ومحبت تھی اور کس قدر تقدس اور بے نفسی کہ ایک دوسرے کے فضائل ومناقب،برتری وبزرگی کا برملا اعتراف کیا کرتے تھے۔اب صد ہاسال بعد اس گئے گزرے دور میں کہ جب نفسانیت کا زور، علم وعمل کی کمی اور تقویٰ دورع کا فقدان ہے تو کسی جعلی پیر یا نام نہاد مولوی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ گھر بیٹھے ان حضرات نفوسِ قدسیہ میں تفریق ڈالے، ان کے بارے میں رائے زنی کرے ان کو برا کہہ کر اپنے بغیض دل کی یوں بھڑاس نکالے اور اپنے نفس امارہ کو یوں تسکین دے۔جبکہ سلف صالحین تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نام لیتے ہوئے کس قدر مؤدب اور معترف حقیقت نظر آتے ہیں اور کیوں نہ ہو کہ ان کا مطمع نظر محبوب خدا ﷺ کو جو خوش کرنا ٹھہرا ہے۔اسی مدارج میں حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ!

حضرت مسروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اکابر تابعین میں سے تھے۔جس وقت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت کرتے تو فرمایا کرتے ”حدثنی الصدیقہ بنت الصدیق حبیبۃ رسول اللّٰہ ﷺ۔“ یعنی مجھ سے حدیث بیان کی صدیقہ ؓ بیٹی صدیق ؓ کی محبوبہ رسول اللہ ﷺنے یا کبھی اس طرح حدیث بیان کرتے۔”حبیبۃ حبیب اللّٰہ امرأۃ من السماء۔“ اللہ تعالیٰ کے حبیب ﷺ کی محبوبہ آسمانی بیوی۔“
اسی مدارج النبوت میں ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کی ایک اور فضیلت یہ تھی وہ فرماتی ہیں کہ”میں اور حضور اکرم ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے اور آپ ﷺ کسی دوسری زوجہ مطہرہ کے ساتھ ایسا نہ کرتے تھے۔
پھر اسی مدارج النبوت میں حضرت شیخ محقق ؒلکھتے ہیں کہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ستر ہزار درہم روپے راہِ خدا میں صدقہ کرتے دیکھا ہے حالانکہ ان کی قمیض مبارک کے دامن میں پیوند لگا ہوا تھا۔
ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ نے ان (حضرت عائشہ صدیقہ ؓ)کے لئے ایک لاکھ درہم بھیجے تو انہوں نے اسی دن سب خرچ کر ڈالے اور اقارب وفقراء (غریبوں) پر تقسیم فرمادئیے۔حالانکہ اس دن آپ روزے سے تھیں۔شام کے کھانے کے لئے ان میں سے کچھ نہ بچایا۔باندی نے عرض کیا کہ اگر ایک درہم روٹی خریدنے کے لئے بچا لیتیں تو اچھا ہوتا۔(حضرت عائشہ صدیقہ ؓ)نے فرمایا ”یاد نہیں آیا اگر یاد آجاتا تو میں بچا لیتی۔“
امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی ؒ مکتوبات شریفہ میں فرماتے ہیں۔”چند سال پہلے فقیر کا یہ طریق تھا کہ اگر طعام پکاتاتھا تو اہل عباکی ارواحِ پاک کو بخش دیا کرتا تھا اور آنحضرت ﷺ کے ساتھ حضرت امیر (علی) رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت فاطمہ الزہرا ؓ اور حضرت امامین کریمین کو بھی ملا لیا کرتا تھا۔
ایک شب کو فقیر نے خواب میں دیکھا کہ حضورﷺ تشریف فرما ہیں فقیر نے سلام عرض کیا تو فقیر کی طرف حضور ﷺ متوجہ نہ ہوئے اور فقیر کی طرف سے روئے مبارک کو پھیر لیا۔اور پھر فقیر سے ارشاد فرمایا کہ ”میں (حضرت عائشہ صدیقہ ؓ) کے گھر کھانا کھاتا ہوں جس کسی کو کھانا بھیجنا ہو وہ (حضرت) عائشہ صدیقہ ؓ کے گھر بھیج دیا کرے۔اس وقت فقیر کو معلوم ہواکہ حضور اکرم ﷺ کی آزردگی اس وجہ سے تھی کہ فقیر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو شریکِ ثواب نہ کرتا تھا(ایصال ثواب کی دعا میں)اس کے بعد فقیر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور تمام ازواج مطہرات کو (جو سب اہل بیت ہیں)شریک کر لیتا ہے اور تمام اہلِ بیت اطہار کو اپنا وسیلہ بناتا ہے۔
سبق:اس سے معلوم ہوا کہ اگر ایصال ثواب کی دعا میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو شریک نہ کیا جائے تو بھی حضور اکرم ﷺ آزُردہ ہوتے ہیں تو جب کوئی دریدہ دہن بیباک ان کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوتا ہو گا تو پھر حضور ﷺ کی رنجیدگی کا کیا عالم ہو گا۔یہیں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔مگر یہاں حضور ﷺ کی ناراضگی کو کون دیکھتا ہے یہاں تو ان دوکانداروں کو اپنی دکان چلانے کی پڑی ہے اور یہ بھی خیال رہے کہ جو بھی حضور اکرم ﷺ کو خواب میں دیکھے تو وہ واقعی حضور ﷺ ہی ہوتے ہیں۔ کیونکہ شیطان تو بمطابق حدیث پاک حضور ﷺ کی صورت مبارک میں آہی نہیں سکتا اور پھر یہ خواب بھی امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔نیز اس سے یہ بھی معلوم ہو ا کہ حضورﷺ کی اس عالم میں بھی اس دنیا کے رہنے والوں پر کسقدر نظر ہے
حدیث مبارکہ ہے کہ! ”عن ابی سلمہ ابن عبد الرحمن عن ابیہ قال سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقول لا زواجہ لا یعطفن علیکم بعدی الا الصابرون والصادقون۔“ترجمہ: حضرت عبدا لرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ فرماتے تھے اپنی گھر والی بیویوں کو میرے بعد تم پروہ لوگ رحم کریں گے جو صابر اور صادق (سچے) ہوں گے۔“
معلوم ہواکہ صبر اور صدق کی پہچان حضور ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد آپ کی بیویوں پر رحم کرنا ہے۔مگر یہاں تو ان کی وفات کے صدیاں بیت جانے کے بعد بھی ان کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اللہ تعالیٰ ہدایت دے۔آمین!
حضرت عمار بن یاسر ؓ (جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے طرفداروں میں اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے مقابلہ میں جنگ کرنے والے تھے)نے ایک آدمی کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حق میں نازیبا کلمات کہتے ہوئے سنا۔اس کی بات سن کر حضرت عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے بدحال! گالیاں پڑنے کے لائق،خاموش ہو جامیں گواہی دیتا ہوں کہ بلاشبہ وہ جنت میں رسول اللہ ﷺ کی بیوی ہو ں گی۔
شائع فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں