یہ کتاب ملکہ نورجہان کی سوانح حیات ہے

مخلص۔ سید محسن نقوی

قارئین کرام۔

آئیے آج آپکو ہم ایک نئی کتاب سے متعارف کراتے ہیں۔

یہ کتاب ملکہ نورجہان کی سوانح حیات ہے۔ اس کی مصنفہ کا نام ہے روبی لال۔ جوکہ مغل دور کی ماہر تاریخ نگار ہیں۔ روبی لال ایمری یونیورسٹی ۔ایٹلانٹا، جورجیا ، میں تاریخ کی پروفیسر ہیں۔

کتاب انگریزی زبان میں لکھی گئی ہے اور اسکا عنوان ہے Empress

اشاعت مارچ ۲۰۱۸ ؁ءکی ہے اور ا سکے پبلشر ہیں ڈبلیو ڈبلیو نورٹن اینڈ کمپنی، نیو یارک۔

کتاب میں کل ۳۰۸ صفحات ہیں۔ اصل متن ۲۲۵ صفحات پر مشتمل ہے۔ باقی نوٹس اور حوالہ جات ہیں۔

کتاب کی لِسٹ پرائس $27.95 ہے لیکن مجھے امیزن ڈات کام سے صرف چھ ڈالر کی مل گئی۔ یہ اصل میں کسی کی پڑھی ہوئی کاپی ہے لیکن بالکل نئی کیفیت میں ہے۔

بہر حال اصل چیز تو کتاب کا متن ہے۔

یہ کتاب ایک ناول کے انداز میں لکھی گئی ہے۔ لیکن اس کی زبان اتنی سلیس ، روان اور بامحاورہ انگریزی میں لکھی گئی ہے کہ ایک بار پڑھنا شروع کرو تو پھر ختم کیے بغیر رکھنے کو دل نہیں چاہتا ہے۔ معمولی مناظر میں تفصیلات اتنی احتیاط سے جمع کی گئی ہیں کہ پوری تصویر سامنے آجاتی ہے۔ منظر کشی اور واقع نگاری اتنی مکمل ہے کہ پوری کتاب ایک فلم کی اسکرپٹ معلوم ہوتی ہے۔

یہ کتاب نہ صرف ملکہ نور جہا ں کی سوانح ہے بلکہ مغل دور میں جو مسلم تہذیب ہندوستان کے معاشرہ میں اُبھررہی تھی اسکی بھی ایک بہت ہی عمدہ تاریخ ہے۔ پڑھتے پڑھتے بے اختیار دل چاہتا ہے کہ ہم اُڑ کر ماضی کے اُس دور میں پہونچ جائیں اور اپنی آنکھوں سے خود وہ سب ہوتا ہوا دیکھیں۔

ابھی ہم نے کتاب ختم نہیں کی ہے لیکن بے اختیار اس بات پر ہم آمادہ ہو گئے کہ جو کچھ پڑھا ہے وہ سب اپنے فورم کے احباب کی خدمت میں پیش کردیں۔

ملاحظہ فرما ئیے کتاب کی تمہید کا حصۂ اول۔ تمہید کے حصۂ دوم میں مصنفہ نے وہ تفصیلات بیان کی ہیں کہ اس نے نورجہاں کو پہلی بار اُس وقت دیکھا جب وہ دہرا دون میں خود نو برس کی تھی اور اسکی والدہ نے اُسے ہندوستان کی تاریخ کی مشہور خواتین کے قصے سُنائے۔

مصنفہ نے اپنی کتاب میں وہ سارے قصے جمع کردئے ہیں جو نور جہاں کی ذات سے وابستہ ہیں اور زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ لیکن مصنفہ نے اہتمام یہ کیا ہے کہ سارے بیانات قابل اعتبار حوالوں سے لیے ہیں اور اسکی دسترس ان حوالوں تک ہوئی ہے جو اب تک تاریخ نگاروں کی نظروں سے پوشیدہ تھے یا انہوں نے جان بوجھ کر ایسے حوالوں کو نظر انداز کیے رکھا تھا۔ نور جہاں کےلباس او رسفر و حضر کی تفصیلات کے لیے نہ صرف کتابوں کو دیکھا ہے بلکہ اُس وقت کی پینٹنگز کی تفصیلات کو بھی بہت غورسے دیکھا ہے۔

ہم اپنے اُن تما م احباب کو تاکید کرتے ہیں جو انگریزی اچھی رفتار سے پڑھتے ہیں اور ایسی تحریروں سے استفادہ کر تے ہیں وہ سب اس کتاب کو ضرور پڑھیں۔

شکریہ۔

========================

۱۶۱۹؁ء کا موسم خزاں شروع ہوچکا تھا۔ فضا میں ہلکی سی خنکی تھی اور آسمان پر مطلع صاف تھا ، ایساموسم جوکہ سفر کے لیے بہت ہی مناسب ہوتا ہے۔ بادشاہ جہانگیر اور ملکہ نور جہاں کا شاہی قافلہ آگرہ سے روانہ ہو چُکا تھا۔شہر آگرہ اُس وقت مغلوں کا دارالسلطنت تھا۔ ملکہ نور جہاں شہنشاہ جہانگیر کی بیسویں اور محبوب ترین زوجہ تھیں۔ شاہی قافلہ ہمالیہ کے دامن کی طرف رواں تھا۔ وہ علاقہ جہاں مشہور شہر متُھرا واقع ہے۔ متھرا ہندووں کی ایک مشہور زیارت گاہ ہے، اور متھرا شاہی قافلہ کے راستہ میں پڑتا تھا۔ شہر متھرا کے باسی شاہی قافلہ کے بیچینی سے منتظر تھے۔ واقعہ یہ تھا کہ پچھلے کئی ماہ سے جنگل کا ایک شیر بار بار دیہات کے رہنے والوں اور وہاں سے گذرنے والوں کو اپنا لقمہ بنائے ہوا تھا۔ شیر جنگل سے نکلتا وہاں کے لوگوں کو اپنا شکار بناتا اور پھر جنگل میں غائب ہوجاتا۔ نہ تو کوئی تدبیر اس کے خلاف کام کر رہی تھی اور نہ ہی کسی جھاڑ پھونک کا کوئی اثر ہو رہا تھا۔ حالانکہ وہاں کے مذہبی ہندو اپنے دیوتا کرشن جی اور دیوی رادھا جن کی پرستش متُھرا کے ہر مندر میں ہوا کرتی تھی، اُنکے حضور میں گڑ گڑا گِڑ گڑاکر پرارتھنا کرر ہے تھے۔ مگر لوگوں کا خیال تھا کہ شہنشاہ ان کے اس مسٔلہ کو حل کردے گا کیونکہ شیر کا شکار شہنشاہِ اعظم کا ایک مشغلہ رہا تھا۔

جہانگیر ۔۔۔ اس نام کا فارسی میں ترجمہ ہوگا ” سارے عالم کا فاتح”۔۔۔ فارسی جو کہ اُس وقت کی درباری زبان تھی۔ اورجہانگیر مغل سلطنت کا چوتھا بادشاہ تھا۔ مغل سلطنت ایک مسلم سلطنت تھی جو سولہویں صدی کے اوائل میں قائم ہوئی تھی۔ اس سلطنت کو قائم کرنے والے وسطی ایشیا کے منگول فاتح چنگیز خاں اور تیمور کی نسل سے تھے۔ مسلمان مغل بادشاہوں نے ہندوستان کی ہندو اکثریت پر تین صدیوں سے زیادہ حکومت کی۔

ایک پُر جوش تاریخ نگار کے بیان کے مطابق اس شاہی کاروان میں پندرہ لا کھ افراد شامل تھے جن میں مرد، عورت، بچے، درباری، سپاہی اور خدمت گار اور دس ہزار ہاتھی اور توپ خانہ سب کچھ تھا۔ یہ کاروان متُھرا کے اطراف میں جا ٹھہرا ۔ خدمت گاروں نے سیکڑوں خیمے گاڑنے شروع کیے۔ حرم کے لیے زنانہ خیمے سجائے گئے جن پر بہت خوبصورت جھلملاتے ہوئے سُرخ پردے پڑے ہوئے تھے۔ جب یہ خیمے برپا کیے جا رہے تھے اُسی وقت مقامی آبادی کے کچھ شکاری جہانگیر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شہنشاہ سے درخواست کی کہ اُن کو شیر کی ستم اندازی سے نجات دلائی جائے۔

بد قسمتی سے بادشاہ کچھ ہی روز پہلے یہ قسم کھا چُکا تھا کہ وہ پچاس برس کی عمر کو پہنچتے ہی شکار سے توبہ کر لے گا۔ بادشاہ نے اللہ کی قسم کھائی تھی کہ وہ اب کسی جاندار کو اپنے ہاتھ سے کوئی نقصان نہیں پہونچائے گا۔ اور اسکو یہ قسم کھائے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے تھے۔ اور باشاہ نے اپنی قسم کی تجدید بھی کی تھی اور منّت مانی تھی کہ اُسی کے صدقہ میں اسکا محبوب ترین پوتہ، جو کہ اس وقت اسکے ساتھ سفر میں موجود تھا اور وہ مرگی کی بیماری میں مبتلا تھا، وہ سلامت و صحت مند رہے۔ لہذا ایسے میں شہنشاہ کے لیے شیر کو مارنا ناممکن تھا۔ لیکن ملکہ معظمہ تو بہر حال اپنی رعایا کی حفاظت کے لیے موجود تھیں۔

ملکہ معظمہ ایک انتہائ حسین و جمیل تجربہ کار خاتون تھیں۔ ملکۂ نور جہاںایک اعلیٰ ایرانی خاندان کی بیٹی تھیں۔ یہ خاندان ایران کی تباہ کاری کے دوران ایران سے ہندوستان آکر پناہ گزیں ہوا تھا۔

نور جہاں ایک ایسے فرد کی بیوہ بھی تھیں جو کہ جہانگیر بادشاہ کے خلاف بغاوت کی سازش کے الزام میں نامزد ہو چکا تھا، لیکن اس پیچیدہ معاملہ کے باوجود جہانگیر بادشاہ نور جہاں کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا۔جب وہ جہانگیر بادشاہ کی زوجیت میں آئیں تو اُس وقت نورجہا ِّں چونتیس برس کی ہو چکی تھیں۔ مغل دور کی سماجی روایات کے مطابق وہ ایک ادھیڑ عمر کی خاتون تھیں۔ نور جہان کی شادی بادشاہ جہانگیر سے ۱۶۱۱؁ء میں ہوئی تھی، وہی برس تھا جب مشہور انگریزی ڈرامہ نگار شیکسپیر نے اپنا ڈرامہ The Tempest شایع کیا تھا۔ پہلے ہی دن سے نورجہاں ( فارسی میں اس نام کے معنیٰ ہیں سارے عالم کی روشنی۔ یہ نام بادشاہ نے خود اپنی چہیتی زوجہ کو خطاب کے طور پر دیا تھا)نے اپنے آپ کو ایک انتہائی وفادار زوجہ اور ایک بہت ہی قابل ملکہ اور سیاسی تدبر کا حامل ثابت کیا تھا۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ انہوں نے اپنے آپ کو ایک ماہر نشانہ انداز شکاری کی حیثیت سے بھی منوا لیا تھا۔ انکی ماہرانہ نشانہ بازی کا چرچا ایک کہانی بن چکا تھا۔ چند ہی برس ہوئے تھے کہ ملکہ نے ایک شکار میں صرف چھ عدد گولیوں سے چار شیر مار کر بادشاہ اور درباری امرا کو حیران کر دیا تھا۔

۲۳ /اکتوبر ۱۶۱۹؁ء کو نورجہاں ایک شاندار ہاتھی پر حوضہ میں سوار ہوئیں، حوضہ وہ مچان ہے جو ہاتھی کی پیٹھ پر بڑے اور اہم سواروں کے لیے سجائی جاتی ہے۔ اُس وقت نور جہان کے ہاتھوں میں ایک بندوق بھی تھی۔ ہاتھی کے مہاوت نے اپنے ہاتھی کو سوار سمیت ریگستانی میدان میں جنگل کی طرف بڑھانا شروع کیا۔ نورجہاں کے ساتھ ساتھ اُس وقت انکے شوہر شہنشاہ جہاگیر بھی تھے جو کہ ایک الگ ہاتھی پر سوار تھے۔ اور اِس شاندار سواری کے پیچھے ایک پورا لاؤ لشکر درباری امرا کا جو کہ اپنے اپنے سجاے ہوے ہاتھیوں، اورگھوڑوں پر تھے اور کچھ بہت ہی آراستہ پالکیوں میں بیٹھے ہوے تھے۔ پالکیاں جن مین ریشمی گدے اور سنہری جھالروں کی لڑیاں لٹک رہی تھیں اور پھولوں کے بڑے بڑے گجرے لہرا رہے تھے ۔

پالکیوں کو اُٹھانے والے کہار بھی پھولوں میں لدے ہوے تھے۔ اُس وقت کی تاریخی تصویروں کی تفصیلات دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اُس وقت ملکۂ نور جہاں نے ایک شاہی پگڑی بھی باندھی ہوئی تھی۔ وہی پگڑی جو بادشاہوں اور امرا کے لیے مخصوص تھی۔ یہ ایک خاتون کے لیے ایک غیر معمولی پہناوا تھا۔ اور ملکہ نے گھٹنوں تک کی قبا زیب تن کی ہوئی تھی جو کہ کمرپر ایک موتیوں کی ایک لڑی سے باندھی گئی تھی زیر قبا ایک تنگ شلوار تھی ،کانوں میں بُندے اور گلے میں یاقوت اور ہیرے کی لڑیوں کا ایک ہار تھا ۔ انکے جوتے ایڑیوں پر کُھلے ہوئے تھے جن سے ایڑیوں پر لگی ہوئی مہندی کا شوخ رنگ نمایاں تھا۔ بیالیس برس کی پُختہ عمر میں بھی وہ نسوانی حُسن کا ایک پُر وقار مرقّع تھیں۔

مقامی شکاریوں کی ایک ٹولی اس شاندار کارواں کو پیدل چلتے ہوئے راستہ بتاتے ہوئے ساتھ تھی۔ ادھر اُدھر دھان اور گیہون کے کھیت لہرا رہے تھے۔ ابھی ابھی گذری ہوئی بارش نے انکو اور زیادہ سر سبز و شاداب کر دیا تھا۔ گزرتے ہوےءانہون نے ہرنوں کے غول اور گاے بھیسوں کے ریوڑ بھی دیکھے اور رم کرتے ہوے سیاہ ہرنوں کو دیکھا جنکے سینگ گھومے ہوے تھے۔ جب کاروان جنگل پہونچا تو بادشاہ اور ملکہ کی نظروں کے سامنے گھنا جنگل تھا، چاروں طرف لمبی لمبی بیلیں بکھری ہوئی ہری بھری جھاڑیا ں اور تناور درختوں کے جُھنڈ ایک دیوار کی طرح راستہ روکے کھڑے تھے۔ مقامی شکاریون نے بادشاہ اور ملکہ کو وہ جگہ دکھائی جہاں شیر ایک دم سے آ سکتا تھا اور وہ وہان رُک کر انتظار میں ٹھہر گئے۔

تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ملکہ نور جہاں کے سواری کے ہاتھی نے آہستہ آہستہ گرجنا شروع کیا ور وہ بے چینی سے ادھر اُدھر قدم بدلنے لگا۔ مہاوت ہاتھی کو قابو میں نہ رکھ سکا اور ملکہ کا حوضہ بھی بُری طرح سے ادھر اُدھر ہلنے لگا۔ بادشاہ جہانگیر اپنے ہاتھی پر سے بیٹھے ہوئے یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ برسوں بعد بادشاہ اپنی ذاتی ڈائری جہانگیر نامہ جو کہ انہوں نے اپنے تخت نشین ہونے کے بعد ۱۶۰۵؁ء میں تحریر کرنا شروع کی تھی وہاں وہ رقم طراز ہیں:

“ہاتھی شیر کی موجودگی میں بے چین ہو جاتا ہے اور وہ مسلسل ادھر اُدھر کروٹ بدلتا ہے، اور ایسے میں حوضہ کے اوپر سے شیر کو بندوق کا نشانہ بنا نا ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔”

اور یوں شیر ایک دم سے سامنے آیا۔ ملکۂ نور جہان نے اپنی بندوق اُٹھائی، شیر کی پیشانی پر اُسکی دونوں آنکھو کے درمیان شِست باندھی اور بندوق کی لِبلبی کو دبا دیا۔ ہاتھی کے بے چینی سے ہلنے کے باوجود، ایک ہی گولی کافی تھی، شیر دھم سے گر پڑا اور اُس کا کام تمام ہو گیا۔ یہ ایک بہت ہی غیر معمولی واقعہ تھا کہ ایک خاتون نے میدان میں شیر پر گولی چلائی تھی، اور یوں ایسے ماہرانہ ا نداز میں ایک خاتون کا شیر کو مار لینا نہ کبھی کسی نے سُنا تھا نہ دیکھا تھا۔

صرف ماہرانہ نشانہ بازی ہی نور جہاں کی اکیلی غیر معمولی صفت نہیں تھی ، ملکہ نے اپنے دور میں وہ کردار ادا کیا ہے جس کی کوئی اور دوسری مثال نہیں ملتی۔ بادشاہ سے ازداوج ہونے فوراً بعد ہی سے ملکہ نورجہاں نے تقریباً پندرہ برس (یعنی بادشاہ جہانگیر کے انتقال کے وقت) تک اپنے شوہر کے ساتھ برابر سے حکومت کے کارو بار میں حصہ لیا تھا۔ انہوں نے دربار کے سیاسی کاروبار اور اُس وقت کے مغل مردانہ سماجی نظام میں بڑھ چڑھ کر کام کیا اور بہت کامیابی کے ساتھ حالات کو قابو میں رکھا۔

انہوں نے خود سرکاری احکامات اور اعلانات کا اجرا کیا اور اُس وقت کے سکوں پر بادشاہ کے ساتھ ساتھ خود انکا اپنا نام بھی ہو اکرتا تھا۔ ایک مسلم حکومت کی تاریخ میں ایسے سِکّوں کا ملنا اور نورجہان کے اپنے نام سے شاہی احکامات کا موجود ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ملکہ حکومت کے کاروبار میں نہ صرف یہ کہ برابر سے شامل تھیں بلکہ بادشاہ کے روبرو اپنا ایک الگ مقام رکھتی تھیں۔ علاوہ این کہ ملکہ نورجہان اپنے وقت مین اُس مقام پر آکر بیٹھتی تھیں جہاں نہ اس پہلے کوئی اور خاتون بیٹھی تھی اور نہ اس کے بعد کوئی اور آیا۔

محل کی دیوار میں ایک انتہائی شاندار سجا ہوا جھروکا تھا جہاں سے سارا سرکاری شاہی کاروبار جاری ہوا کرتاتھا۔ رعایا کے افراد اُسی جھروکے کے نیچے آکر کھڑے ہوتے اور ملکہ کی صحت اور طول عمر کے لیے دعائیں بھی کرتے اور ایک تاریخ نگار کے بیان کے مطابق ملکہ کے چہرہ کی زیارت کو اپنے لیے باعث برکت بھی سمجھتے تھے۔ دوسری طرف امرا بھی جھروکے کے نیچے آکر ملکہ معظمہ کی زبان سے احکامات سنا کرتے تھے۔ یہان تک کہ ملکہ عظمت اور اختیارات اس حد تک پہونچ گئے تھے کہ بادشاہ صرف نام کا بادشاہ رہ گیا تھا۔ خود بادشاہ نے بھی بار بار اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اُس نے حکومت کے اختیارات ملکہ کو سونپ دئے تھے۔

صرف ایک نسل پہلے، جہانگیر بادشاہ کے والد اکبر اعظم کے حکم سے ساری شاہی خواتین، یعنی شہزادیاں، ازواج اور کنیزیں سب کو پردہ میں محفوظ کر دیا گیا تھا۔ اکبر نے انکو با پردہ خواتین کہا تھا۔ لیکن صرف تیس برس بعد، ملکہ نور جہاں با زار، دربار اور ہر اُس جگہ جہاں صرف مردوں کا عمل دخل ہوا کرتا تھا وہاں بھی باقاعدہ موجود ہوتی تھیں۔ یہ سیاسی اورحکومتی اقتدار کا ایک با لکل نیا پہلو تھا۔

ملکہ نورجہاں مغل سلطنت کی تاریخ میں اکیلی خاتون سیاسی شخصیت تھیں۔ ایسے وقت اور ایسی جگہ پر یہ کیسے ہوا؟ ملکہ کی غیر معمولی سیاسی بصیرت، انکے کردار کی مضبوطی اور بادشاہ کی کمزوریاں، سترہویں صدی کے سیاسی داؤ پیچ اور ملکہ اور بادشاہ کی آپس میں شدید محبت نے اُس وقت کے سارے قانون توڑ دیے، وہ سارے اصول بھی جو عام حالات میں ملکہ نورجہاں کی سلطنت کو ناممکن بنانے کے لیے کافی تھے۔

اپنا تبصرہ لکھیں