مصطفےٰ زیدی الہ آباد میں پیدا ہوئے تھے[1]۔ ۱۹۵۱ میں پاکستان آگئے۔ انگریزی میں ایم۔اے کیا اور اسلامیہ کالج کراچی میں لکچرر ہو گئے۔ پھر پشاور یونیورسٹی چلے گئے۔ ۱۹۵۴ میں سی۔ایس۔پی میں کامیاب ہوئے۔ ۱۹۵۶ میں انگلستان سے ٹریننگ لے کر آئے اور سیالکوٹ میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوئے۔ اسی دوران ایک جرمن نژاد خاتون ویرا فان ہِل سے شادی کی۔ اسکا واقع بھی مختصراً سُنتے چلئے۔
ہم ۱۹۵۸ میں لکھنؤ سے پہلی بار پاکستان آئے۔ وہاں ہمارے نانا مرحوم سید ظفر عباس صاحب سیالکوٹ ڈگری کالج میں انگریزی کے پروفیسر تھے۔ مرحوم نے ہم سے یہ واقعہ خود بیان کیا تھا۔ ایک دن انکے پاس یہ پیغام آیا کہ ایک ایسے نکاح خوان کی تلاش ہے جو عربی کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی جانتا ہو۔ سیالکوٹ جیسے چھوٹے سے شہر میں ایسے لوگ گنتی ہی کے ہونگے۔ بہر حال قرعۂ فال مرحوم کے نام نکلا اور انکے پاس یہ پیغام آیا کہ مقامی اسٹنٹ کمشنر صاحب ایک یوروپین خاتون سے شادی کر رہے ہیں اور وہ خاتون یہ چاہتی ہیں کہ نکاح خوان سے رو برو گفتگو کر سکیں۔ ہمارے نانا ، مرحوم جناب ظفر عبّاس صاحب وہاں پہونچے اور انکی ملاقات ویرا سے ہوئی۔ ویرا نے ان سے بہت سی باتیں کیں۔ ان میں سے زیادہ تر ہم بھول چکے ہیں صرف ایک بات یاد ہے۔ ویرا نے نانا سے کہا کہ میں یہ شادی اسلئے نہیں کر رہی ہوں کہ زیدی کوئی بہت با اثر اور رسوخ والے افسر ہیں یا یہ کہ وہ ایک بہت ہی دولت مند خاندان کے فرد ہیں۔ میں واقعاً اُن سے محبت کرتی ہوں۔ اور انکی خواہش تھی کہ یہ بات تاکید سے مصطفےٰ زیدی کو پہونچا دی جائے۔
اِرتقا ۔ مصطفےٰ زیدی
۱
یوں تو اِس وقت کے پھیلے ہوئے سنّاٹے میں
رات کے سینے سے کتنے ہی گجر پھوٹے ہیں
۲
عقل کو آج بھی ہے تشنہ لبی کا اِقرار
سیکڑوں جام اُٹھے، سیکڑوں دِل ٹوٹے ہیں
۳
کِس کو معلوم کے اجداد پہ کیا کچھ گذری
خوں سے آلودہ ہیں اِس راہ پہ قدموں کے نشاں
۴
اِنہیں راہوں سے پیمبر بھی گئے مُلحِد بھی
اِنہیں راہوں پہ بھٹکتا رہا بے بس اِنساں
۵
زندگی ایک ستائے ہوئے طائر کی طرح
پھڑپھڑاتی رہی تاریخ کی زنجیروں میں
۶
اور سقراط و فلاطون و ارسطو کا لہو
رنگ بھرتا رہا لمحات کی تصویروں میں
۷
کون سے جال نہ ڈالے گئے ہر مرکز پر
کیا جیالے تھے کہ جو مائلِ پرواز رہے
۸
اَبَدیت کے نشاں لمحہ نازک کے نقُوش
بشریّت کے لئے راز تھے اور راز رہے