ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ
بعض اوقات انسان انجانے میں ایسے افعال کرگزرتا ہے جن کے نتائج بہت بھیانک اورہولناک ہوتے ہیں ۔ جب نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انسان چلا اٹھتا ہے کہ یہ کیا ہوا میرے ساتھ۔جیسا کہ اس کہانی میں چڑیا ایک چھوٹا سا پرندہ ہے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا کہ یہ کسی سے اپنا انتقام لے گی لیکن ۔۔۔
یہ لگ بھگ65- 1960 کی بات ہے۔ اس زمانہ میں پاکستان کے اکثر علاقے بجلی کی سہولت سے محروم تھے۔بالخصوص دیہی اورنواحی علاقے بہت زیادہ پس ماندہ تھے۔اس لئے رات ہوتے ہی تاریکی کا راج ہوتا ۔یعنی راتیں روشن تونہ تھیں لیکن لوگوں کے دل محبت وہمدردی کے نور سے منور تھے۔ لوگ بہت ملنسار تھے ۔ ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹنے میں دلی اطمینان وسکون محسوس کرتے تھے۔
ایک شخص کراچی کے نواحی علاقے میمن گوٹھ میں امامت کے فرائض ادا کرتا تھا۔ وہ اس علاقے میں بہت خوش تھا۔ وہاں کے لوگ بہت ملنسار،غم گسار، ہنس مکھ تھے۔ وہاں آب وہوا بہت تازہ تھی۔ ارد گرد سبزہ ہی سبزہ تھا۔خاص طور پر وہ شخص شاعرانہ مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ فطرت سے قریب زندگی گزارنے کا دلدادہ تھا۔ شاعرانہ مزاج ،پُرفضاماحول اور اس کی طبیعت کی جولانی نے اس کی آنکھوں میں گویا ساون ہی بسادیا۔بقول ابوعلی محمد رمضان صاحب
تجھ کو سوجھتا ہے ہرا ہی ہرا
ساون آنکھوں میں بس گیا ہو جیسے
اس پرمستزاد وہاں خالص دودھ ،دہی ، مکھن، دیسی انڈے، دیسی گھی، تازہ سبزیاں اورگوشت الغرض خوش خوراکی کے لئے بہت ہی ارزاں قیمت پر بہترین غذا ہروقت میسرتھی۔ وہاں کی ایک اورخاص بات پرندوں کا گوشت تھا ۔ جو ذرا سی محنت سے بالکل مفت حاصل ہوجاتا۔ان صاحب کو بھی چڑوں کی یخنی محبوب تھی۔ کبھی کبھی وہ چڑے پکڑتے اوران کی یخنی سے لطف اندوز ہوتے تھے ۔چڑے پکڑنے کے لئے اسے کوئی خاص محنت نہ کرنی پڑتی کیونکہ اس شخص کا کمرہ چڑیاں پکڑنے کے لئے نہایت موزوں تھا۔وہ اپنی دہلیز پر بہت سے دانے گرادیتا ۔جب چڑیاں دانے چگنے میں مصروف ہوتیں تو یہ اچانک دروازہ بند کردیتا اور اندر جاکر انہیں پکڑلیتا۔ ایک دن اس نے اسی ترکیب پر عمل کرتے ہوئے بہت ساری چڑیوں کو کمرے کے اندردھکیل کر کمرا بند کردیا۔ ارادہ تھا کہ تھوڑی دیر بعد انہیں ذبح کرکے شام کا بہترین سالن پکایاجائے گا۔
خدا کا کرنا کچھ یوں ہوا کہ وہ دن اس شخص کا کچھ اتنا مصروف گزرا کہ دن بھر اسے چڑیوں کا خیال تک نہ آیا۔دوپہر کو قیلولہ کرنے کے بعد جب وہ اٹھا تو عصر کا وقت ہوچکا تھا۔ عصر کی نماز پڑھاکر فارغ ہی ہوئے تھے کہ اس علاقے کا ایک بااثر آدمی ملنے کے لئے آگیا۔ اس سے گفتگو کے دوران مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا۔ مغرب کے بعد کسی اور شخص سے ملاقات کرنا پڑی جس نے کھانے کی دعوت بھی دی ۔ وہاں کھانا کھانے کے بعد جب آئے تو عشاء کا وقت ہوچکا تھا ۔ اس زمانے میں لائٹ تو تھی نہیں اس لئے لوگ عشاء کے فورا بعد سوجاتے تھے۔ یہ شخص بھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد وہیں مسجد کے باہر کھاٹ لگا کر سوگیا ۔اب آتے ہیں انتقام کی جانب جس کے لئے یہ ساری تمہید باندھی گئی ہے۔
عشاء کی نماز کی ادائیگی کے بعد وہ شخص سوگیا۔آدھی رات کواٹھا انتہائی گھبراہٹ ووحشت کا عالم، ہر سوسناٹا ،چاند کی کوئی روشنی نہیں ،اندھیرا ہی اندھیرا، وہ شخص بار بار تھوک رہاتھا ایسا محسوس ہورہاتھا کہ وہ خون تھو ک رہا ہے۔جب خوف اوروحشت پر قابو نہ پاسکا تو اس نے دفعۃً ایک فیصلہ کیا ۔اور وہیں سے اونچی اونچی آوازیں دے کر بستی کے لوگوں کو بلانے لگا۔ بستی کے چند افراد آئے وہ حیران و پریشان تھے آخر معاملہ کیا ہے۔آدھی رات کو ہمیں کیوں بلایا گیا ہے؟
امام صاحب نے ان (بستی والوں )سے کہا میری طبیعت بہت خراب ہورہی ہے ،مجھے بہت گھبراہٹ ہورہی ہے،میرے منہ سے خون نکل رہا ہے۔ بقول عزیز لکھنوی
دل کی آلودگیٔ زخم بڑھی جاتی ہے
سانس لیتا ہوں تو اب خون کی بو آتی ہے
لہذا میں اس امامت کو جاری نہ رکھ سکوں گا۔ انہوں نے چراغ کی روشنی میں دیکھ کر بتایا کہ وہاں تو خون کا ایک دھبہ بھی نہیں ہے۔ لیکن اس شخص کا مسلسل اصرار تھا کہ یہ خون ہے اور چراغ کی روشنی میں بھی اسے لگا کہ وہ خون تھوک رہاہے۔ بستی کے لوگ ایسا قطعا نہ چاہتے تھے کہ وہ اس شخص سے بہت مطمئن تھے۔وہ ایک متقی اورپرہیز گار شخص تھا۔ دن کے اوقات میں بستی والوں کے بچوں کو ناظرہ اور دوسری تعلیم دیتا تھا۔ جب گاؤں والے کسی طرح نہ مانیں تو اس نے کہا مجھے لگتا ہے کہ مجھ پر ٹی بی کا حملہ ہوا ہے۔ اور پھر اسی وقت گاؤں والوں سے کچھ اورانتظام کرنے کا کہا۔ گاؤں والوں کے بار بار اصرار کے باوجود اس نے وہاں امامت جاری رکھنے سے منع کردیا آخر گاؤں والوں کو اس کی بات ماننی پڑی۔
اس شخص کو کچھ سمجھ نہ آرہاتھا کہ معاملہ کیا ہے ۔وہ جب سونے لگا تھا اس وقت تو بالکل ٹھیک تھا۔اس کی طبی معلومات کے مطابق اسے لگا کہ وہ ٹی بی کا شکار ہوچکا ہے۔ اس وقت ٹی بی ایک خوفناک اور لاعلاج مرض تھا۔ اگراس وقت کسی کو علم ہوجاتا کہ اسے ٹی بی ہے تو گویا اسے موت کا پروانہ مل گیا ، خاص کر کمزور مالی حالت والوں کے لئے یہ واقعی موت کا پروانہ ہی تھا۔اس شخص کی آواز قبر سے آتی معلوم ہوتی تھی ۔ایسا محسو س ہوتا تھا کہ اس شخص سے قوت گویائی سلب کرلی گئی ہے اور اب وہ اپنا حال تک بیان نہ کرپائے گا۔ بقول عزیز لکھنوی
بتاؤ ایسے مریضوں کا ہے علاج کوئی
کہ جن سے حال بھی اپنا بیاں نہیں ہوتا
بہرحال جیسے تیسے کرکے صبح ہوئی اسی بے چینی میں صبح ہوتے ہی اس نے اپنا کمرہ کھولا اپنا سامان لیا تو وہاں پورے دن کی بھوکی پیاسی بے چین چڑیاں باہر نکلیں۔لیکن گردو وپیش سے مکمل بے خبر یہ بے چین شخص سب سے پہلے اسپتال گیا اپنا چیک اپ کروایا۔ڈاکٹر نے رپورٹ کے لئے اگلے دن آنے کا کہا لیکن اس شخص کی بے چینی دور نہ ہوتی تھی۔اس نے ملتان واپس جانے کا فیصلہ کیا اور وہاں اپنے ایک دوست کو ذمہ داری سونپ کر ملتان چلا گیا ۔ وہ شخص اتنا بے چین تھا کہ کراچی سے رپورٹ کا انتظار بھی نہ کرسکا ۔اس نےملتان پہنچتے ہی سب سے پہلے نشتر ہسپتال سے اپنا دوبارہ چیک اپ کروایا ۔یہاں بھی رپورٹ کے لئے تین دن کا انتظار کرنا پڑا۔تین دن بعد رپورٹ ملی ۔ اسے ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ سو فیصد صحیح ہے ٹی بی کے کوئی آثار نہ تھے۔ایک دو دن بعد کراچی سے بھی رپورٹ آگئی کہ وہ بالکل صحیح ہے۔ لیکن یہ پھر ایسا کیا ہوا کہ وہ گھبراہٹ، پریشانی، وہ تڑپ اس میں آخر کوئی کمی کیوں نہیں ہوتی بقول امداد امام اثرؔ
تڑپ تڑپ کے تمنا میں کروٹیں بدلیں
نہ پایا دل نے ہمارے قرار ساری رات
آخر اس کے ذہن میں آیا” چڑیوں کا انتقام”۔یہ خیال ذہن میں چپک گیا کہ تم نے شدید گرمی میں چڑیوں کو پورا دن بھوکا پیاسا رکھا جس کی بناپر تمہارے حواس پر بھی ٹی بی کا بھوت سوار کردیاگیا۔اوردفعۃ حدیث مبارکہ ذہن میں آئی جس میں ایک بلی کو تکلیف دینے کی وجہ سے ایک عورت کے جہنم میں جانے کا ذکر تھا صحیح مسلم کی ایک روایت کچھ یوں ہے کہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ سَجَنَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ لاَ هِيَ أَطْعَمَتْهَا وَسَقَتْهَا إِذْ حَبَسَتْهَا وَ لاَ هِيَ تَرَكَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الأَرْضِ “حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا’’ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب ہوا۔ اس نے بلی کو قید کئے رکھا یہاں تک کہ وہ مر گئی ، پھر اسی بلی کے سبب وہ جہنم میں گئی ۔ دوران قید اس نے بلی کو نہ کھانا دیا، نہ پانی اور نہ اس کو چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھالیتی ۔‘‘ (یوں اس نے بلی کوبھوکا پیاسا رکھ کر تڑپا تڑپا کر مارا تھا جس کے سبب وہ دوزخ کا ایندھن بن گئی)۔
یہ حدیث مبارکہ ذہن میں آتے ہی اس شخص نے توبہ کی اور اس واقعہ کے بعد وہ حتی المقدور پرندوں اور دیگر حشرات الارض کے دانہ پانی کا انتظام کرنے والا بن گیا۔یوں کافی عرصہ گزرنے کے بعداس کے دل کو ٹھنڈک ملی اوراسے سکون قلب میسر آیا۔
حاصل کلام:
یہ دوسروں کو انجانے میں ایذا پہنچانے کے سبب اندر کی آگ تھی اتنی خوفناک کہ بھوک پیاس سب کچھ غائب ۔انسان اپنے تمام معمولات یکسر چھوڑ دینے پر مجبور ہوگیا۔حالانکہ یہ حادثہ اس شخص کے بھولنے کی وجہ سے پیش آیا تھا، لیکن دنیا میں بعض انسان تو جانتے بوجھتے دوسروں کو ایذا دیتے ہیں اور ان کی تکلیف پر خوش ہوتے ہیں۔ان کا انجام کیا ہوگا؟
ایسے انسان بعض اوقات دنیا ہی میں اپنے اندر کی آگ میں سلگنے لگتے ہیں۔ جسے ٹھنڈک ظاہری اسباب سے نہیں ملتی بلکہ انہیں تو بعض اوقات توبہ اور رب کی طرف پلٹنے کا بھی خیال ہی نہیں آتا۔اور وہ اسی آگ میں جل کر مرجاتے ہیں اور آخرت کی اس آگ کا ایندھن بن جاتے ہیں جس کا ایندھن انسان اورپتھر ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حفظ وامان وعافیت میں رکھے! نہ ہم کسی پر ظلم کریں اور نہ ہم پر ظلم ہو ۔آمین