فضیلت زیارتِ مکہ و مدینہ
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال
جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سید عالم (ﷺ) اس خاک پہ قربان دلِ شیدا ہے ہمارا
اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے کائنات میں جو کچھ بھی تخلیق فرمایا،یقینا بے انتہا خوب ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِےْن۔“ ترجمہ: ”تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنا نے والا۔“ (المومنون)
زمین وآسمان،جو کچھ ان میں اور ان کے علاوہ ہے بلاشبہ بہت خوب ہے۔پوری زمین بابرکت اور اہل اسلام کے لئے مسجد کا مقام رکھتی ہے۔لیکن زمین کے جس حصہ کو اس کے محبوب بندوں سے خاص طور پر نسبت ہو اس کی اہمیت وفضیلت وبرکت زمین کے دیگر حصوں سے زیادہ ہے۔جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:”مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ۔“ترجمہ:”مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھی۔“(بنی اسرائیل)(کنزالایمان)
جب مقامات مقدسہ، آثار اسلام ودیگر انبیاء کرام کی نسبت کے باعث مسجد حرام تا مسجد اقصیٰ تک کا علاقہ بابرکت قرار پایا تو اس سرزمین کی قسمت کا کیا کہنا جسے بالخصوص محبوب خدا،سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفےٰﷺ سے نسبت کا شرف حاصل ہو۔
حرم کی زمین اور قدم رکھ کے چلنا ارے سرکا موقع ہے او جانے والے
ارشاد باری تعالیٰ ہے:”لَااُقْسِمُ بِھٰذَ االْبَلَد ہ وَ اَنْتَ حِلٌّم بِھٰذَاالْبَلَد 0“ترجمہ: ”مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبو ب تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔“(کنزالایمان)(البلد)
آیات مذکورہ میں شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔معلوم ہوا کہ یہ عظمت مکہ مکرمہ کو سید عالم ﷺ کی رونق افروزی کی بدولت حاصل ہوئی۔(خزائن العرفان حاشیہ کنزالایمان)
تو جب حضور پر نور شافع یوم النشور ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر یثرب تشریف لے گئے تو یثرب یثرب نہ رہا،مدینہ منورہ بن گیا۔عزت وحرمت والا بن گیا۔باالفاظ دیگر اگر یوں کہا جائے کہ آیاتِ مذکورہ کا مضمون اب مدینہ طیبہ پر بھی منطبق ہوتا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں حنفی قادری فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
کھائی قرآں نے خاک گزر کی قسم اس کفِ پاکی حرمت پہ لاکھوں سلام
زیر قلم مضمون میں مناسک حج سے متعلقہ مقامات کو مستثنیٰ رکھتے ہوئے (کہ ان کا تذکرہ مضامین حج میں موجود ہے)بعض دیگر مقامات کا ذکر قارئین کرام کی نذر کرنے کی سعادت حاصل کی جا رہی ہے۔
حضرت اسمٰعیل علیہ السلام وحضرت ہاجرہ سلام اللّٰہ علیہا کے مزارات:پرنالہ ء کعبہ یعنی میزاب کے نیچے زیر سنگ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا مزار پُرانوار ہے۔حضرت اسمٰعیل علیہ السلا م کے مزار شریف کے ایک جانب رکن عراقی کے قریب آپ کی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ سلام اللہ علیہاکا مزار اقدس ہے۔ہر دو مزارات مابین سات بالشت کا فاصلہ ہے۔(سفر ابنِ بطوطہ)
مولد الرسول ﷺ: وہ بابرکت مقام جہاں آقا ئے کائنات ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔محلہ ”فشاشیہ“(مکہ معظمہ)کی اس گلی میں ہے جسے ”سوق الیل“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ مکان مبارک جہان سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اس نورمجسم ﷺکو جنم دیا جس کے نور سے انہوں نے شام کے محلات کا مشاہدہ فرما لیا۔(بحوالہ بخاری شریف)
اب اصلی حالت میں تو محفوظ نہیں تاہم موجودہ عمارت اسی مقام پر ہے جہاں آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
مولد مبارک ان مقد س مقامات میں سے ہے جن کی برکت سے دعائیں قبول ہوتی ہیں۔مفتی مکہ شیخ عبدالکریم القطبی نے تحریر فرمایا ہے جس کا مفہوم
یہ ہے۔”مولد النبی ﷺ کے پاس دعائیں قبول ہوتی ہیں اور یہ مقام محلہ بنی ہاشم میں مشہور ومعروف ہے۔(اعلام العلماء)
حشر تک ڈالیں گے ہم پیدائش مولیٰ کی دھوم مثلِ فارس نجد کے قلعے گراتے جائیں گے
محلہ بنی ہاشم:جبل ابو قبیس کے دامن میں واقع ہے۔یہی وہ جگہ ہے جہاں قبیلہ قریش آباد تھا۔جہاں آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب رہائش پذیر تھے جو خاندان بنو ہاشم کے سردار اور خانہ کعبہ کے متولی تھے۔یہیں وہ گھاٹی تھی جسے شعب ابی طالب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جہاں آ پﷺ اور آپ ﷺ کے قبیلے نے کفار مکہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر تین سال گزارے۔
جبل ابو قبیس:یہ پہاڑ صفا شریف پہاڑی کے بالکل نزدیک ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مطابق جب اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پیدا فرمائے تو سب سے پہلے جبل ابو قبیس کو پیدا فرمایا۔طوفان نوح علیہ السلام کے بعد حجر اسود اس پہاڑی میں بطور امانت محفوظ رہا۔یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کا مزار یہیں ہے۔وہ متبرک مقام جہاں معجزہ شق القمر کے وقت حضور پر نور شافع یوم النشور ﷺ قیام پذیر رہے اسی پہاڑ پر ہے۔(سفر نامہ ابن بطوطہ)
جبل نور: مکہ معظمہ سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر واقع ہے۔اس کی چوٹی پر وہ مقد س غار ہے جو تاریخ میں ”غار حرا“ کے نام سے مشہور ہے۔ جس میں حضور ﷺ کی حیات مبارکہ کا اکثر وقت گزرتا تھا اور جس میں آپ ﷺ پر پہلی وحی کا نزول ہوا۔
بجھ گئیں جس کے آگے سبھی مشعلیں شمع وہ لے کر آیا ہمارا نبیﷺ
جبل ثور:مکہ مکرمہ سے تقریباً چھ میل دور یمن کے راستہ پر واقع ہے ”غار ثور“ اسی پہاڑ میں ہے جس میں آپ ﷺ دوران ہجرت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہکے ہمراہ پناہ گزیں رہے۔
مقام خواب راحت چین سے آرام کرنے کو بنا پہلوئے محبوب خدا،صدیق اکبر ؓ کا
جائے سکونت سیدہ خدیجہرضی اللہ تعالیٰ عنہا:وہ مقام جہاں آقائے کائنات ﷺ کی پہلی زوجہ محترمہ،ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رہائش تھی۔جہاں حضرت زینب رضی اللہ عنہا،حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا،حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا، سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا،حضرت طاہر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت طیب رضی اللہ تعالیٰ عنہپیدا ہوئے نہایت فضیلت کا حامل ہے۔یہ متبرک مقام کوہ مروہ کے دامن میں چھتہ بازار کے اندر زر گروں کی پہلی گلی میں واقع ہے۔
بیت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ:وہ متبرک مقام جہاں سے آپ ﷺ نے بوقتِ ہجرت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہکو ساتھ لیا تھا۔و ہ مقدس مقام جو اس عظیم الشان نیکی کا نقطہ آغاز تھا جس کے مقابلے میں رفیق رسول ﷺ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہبھی اپنی عمر بھر کی نیکیوں کو کمتر خیال فرماتے تھے،محلہ مسفلہ میں زرگروں کی گلی میں واقع ہے۔
مصحف زیدبن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ:حرم شریف سے متعلقہ لائبریری میں قرآن کریم کا و ہ متبرک مصحف شریف جو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہنے آپ ﷺ کی وفات شریف کے بعد 18ھ میں نقل فرمایا تھا۔ایک تابوت کے اندر محفوظ ہے۔ اس مصحف شریف کی بابت مرقوم ہے کہ!
”اہل مکہ جب کسی قحط یا مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو اس مصحف شریف کو نکالتے ہیں اور کعبہ شریف کا دروازہ کھول کر آستانہ مبارک پر رکھ دیتے ہیں اور اس کے ساتھ مقام ابراہیم علیہ السلام پر بھی لا کر رکھتے ہیں اور سب لوگ ننگے سر جمع ہو کر مصحف شریف اور مقام شریف کے توسل سے دعا مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ خاص لطف وکرم فرما دیتا ہے۔(سفر نامہ ابن بطوطہ)
جنت المعلٰی: مکۃ المکرمہ کا قبرستان جو کہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔جس میں بے شمار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین،تابعین،تبع تابعین،اولیاء کرام اوربزرگانِ دین مدفون ہیں۔حضور ﷺ کی پہلی زوجہ اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا مزار اقدس بھی اس قبرستان میں ہے۔علاوہ ازیں حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق، عبدالمطلب، چچا ابو طالب،حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صاحبزادگانِ رسول ﷺ حضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت طاہر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت طیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس قبرستان میں آرام فرما ہیں۔مگر افسوس صدافسوس کہ نجدی حکومت کی ستم ظریفیوں کے باعث بے شمار قبریں بے نشان ہو کر رہ گئی ہیں۔
جنت المعلٰیہو یا جنت البقیع (مد ینہ منورہ کا مشہور قبرستان)انہیں لوہے کے مشینی ہلوں سے برابر کر ڈالا گیا۔کہیں سڑکیں کھلی کرنے اور کہیں توسیع پسندانہ منصوبوں کے نام پر یہ دل آزار منظر کشی داغی گئی۔حتیٰ کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰرضی اللہ تعالیٰ عنہاجیسی متبرک ہستیوں کی قبروں کے نشانات تک کو مٹا دیا گیا۔(بحوالہ: سیدہ آمنہ ؓ اور مملکت سعود یہ کی ستم کاریاں)
جاری ہے