کہنے کو جب بہت کچھ ہو ، اور سوچنے کو کچھ نہ ہو ، تو ہمارے پاس کھونے کے لئیے کچھ نہیں ہوتا اور جب کھونے کے لئیے کچھ نہ ہو تو کچھ کھونے کا ڈر بھی نہیں ہوتا اور جب کسی بات کا ڈر نہ ہو تو ہم سوچے سمجھے بنا بولے چلے جاتے ہیں ۔
بولنے والے ہر دور میں زیادہ ہوتے ہیں بلکہ بہت زیادہ ہوتے ہیں اور جو زیادہ بولتے ہیں ، وہ سننے اور سمجھنے سے عام طور پر قاصر ہوتے ہیں،وہ دیکھنے ، پڑھنے اور سوچنے سے بھی عاری ہوتے ہیں اور چونکہ وہ دیکھنے ، سننے ، پڑھنے ، سمجھنے اور سوچنے کے عادی نہیں ہوتے ، تو ان کو کسی بات کی پرواہ بھی نہیں ہوتی اور اس بات کی تو بالکل بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیوں کہہ رہے ہیں اور جو کہہ رہے ہیں،وہ کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے؟ ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے عہد میں بولنے والے جوق در جوق ، ہمارے آگے پیچھے ، چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں اور ہمیں گھیرے میں لئیے ہوئے ہیں اور سوچنے والے ، سمجھنے والے ، دبتے جارہے ہیں ، سکڑتے جارہے ہیں اور ڈر کر ، مرعوب اور متاثر ہو کر ، اکثریت کی راہ پکڑتے جارہے ہیں۔سوچنا چھوڑ کر بولنا شروع کر رہے ہیں اور چونکہ بولنے کو بہت کچھ ہے تو ہر پرانا ، نیا بولنے والا ، بڑبولا بنا پھر رہا ہے اور وہ وہ کچھ بول رہا ہے جو نہ کسی کی سمجھ میں آرہا ہے اور نہ عملی زندگی سے اس کا تعلق بن رہا ہے ۔
جس عہد میں ، جس دیس میں بولنے والے اور بڑھ چڑھ کر بولنے والے دن بہ دن بڑھ رہے ہوں اور ان کی صحیح غلط ، جھوٹی سچی باتیں سن کر ، سوچنے ، سننے اور سمجھنے والے بونے بن رہے ہوں اور بولائے بولائے پھر رہے ہوں تو اس عہد ، اس دیس میں ترقی ، تنزل کا راستہ پکڑ لیتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب احساس مر جاتا ہے ، انسانیت دم توڑ دیتی ہے ، خواب عذاب بن جاتے ہیں ، خیال بانجھ ہو جاتے ہیں اور انسان ، انسانوں جیسی شکل رکھنے کے باوجود اپنی فطرت میں جانور بن جاتے ہیں اور جانوروں کی خصلت اپنا کر جانوروں کی طرح اور بیشتر حالات میں جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے لگتے ہیں اور ان جانوروں میں بھی اعلی ارفع غیرت مند جانور نہیں بلکہ زیادہ تر اسفل اور رزیل جبلت کے حامل جانوروں کی خصوصیات زندگی کا حصہ بنتی چلی جاتی ہیں۔
انسان نما جانوروں کے غول میں غور سے دیکھنے اور کھنگالنے پر بھی شیر ، چیتے ، عقاب کی خصلت والے لوگ شاید ہی ملیں،بھیڑوں ، بکریوں کے ریوڑ اور مرغیوں ، کبوتروں کے جھنڈ اور مچھلیوں کے گروہ تو تھوک کے حساب سے دیکھنے میں آئیں گے،گدھوں اور گھوڑوں کی بھی کمی نہیں ،چیل ، کوے ، گدھ ، بھی وافر مقدار میں موجود ہیں،کتے ، بھیڑیے اور لومڑیوں کی خصوصیات والے بھی اچھی خاصی بھیڑ میں ہیں،الووں کی بھی کمی نہیں،جا بہ جا اونٹ اور ہاتھی اور بندر اور بن مانس جیسے بھی دکھائی دے جائیں گے،طوطوں کی تو بالکل بھی کوئی کمی نہیں،غرضیکہ انسان نما حیوانوں کے جھرمٹ میں ہر طرح کے چرند ، پرند ، درند کی خصلتوں اور خاصیتوں کے حامل نام نہاد انسانوں کا ہجوم بیکراں ہے،جس کی کوئی منزل نہیں، جس کا کوئی فلسفہ حیات نہیں ۔ ایسا انوکھا اور نرالا ہجوم ، جسے کسی شے کی کوئی پرواہ نہیں ،جسے کسی انسان کا کوئی احساس نہیں ، اپنے آپ میں گم ۔ گمشدہ ۔ سوچ ختم ہوجائے ، سمجھ ختم ہوجائے، سماعت ختم ہوجائے تو سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ نہیں بچتا،محض حیوانی جبلت کے خاص خاص حوالے رہ جاتے ہیں ، بقا ، بچاؤ اور فرار ۔ صرف اور صرف اپنا مفاد ۔ محض Instict Of Self Survival ۔
جو باتیں ، جو چیزیں انسان کو انسان کا رتبہ دیتی ہیں ، وہ سوچ ، سمجھ ، سماعت کے ختم ہونے کے ساتھ ساتھ ختم ہوجاتی ہیں ۔ پرندوں اور جانوروں کے تو رہن سہن کے اپنے اصول اور قاعدے ہوتے ہیں،مخصوص ضابطے ہوتے ہیں مگر سوچ ، سمجھ اور سماعت سے عاری ، روح انسانی سے خالی انسانوں کی زندگی کا کوئی قاعدہ قانون ، کوئی ضابطہ اصول نہیں ہوتا ۔ ان کی سب سے عزیز شے ، ان کی اپنی آواز ہوتی ہے ۔ ان کو سب سے زیادہ اچھی ، اپنی باتیں لگتی ہیں ۔ ان کو سب سے زیادہ محبت ، اپنے آپ ، اپنے وجود ، اپنے چہرے سے ہوتی ہے ۔ بولنے والوں کو محض سننے والوں اور سن سن کر سر دھننے والوں کی ضرورت رہتی ہے ۔ ہمارے عہد میں ایسے لوگوں کی کھیپ کے بعد کھیپ تیار ہورہی ہے ۔ تماش بین اور سامعین ۔ جوق در جوق ، غول در غول ، واہ واہ کرنے ، تالیاں پیٹنے ، شور مچانے ، بھنگڑا ڈالنے ، گالیاں دینے کے لئیے ہمہ وقت موجود ہیں ۔ بولنے والوں کے بولوں پر لڈی ہو جمالو گانے کے لئیے تیار ہیں ۔ جانے بنا ، سمجھے بنا ، سوچے بنا ، پورا شہر سر پر اٹھانے کے لئیے بیتاب ہیں ۔
ایسے عہد میں ، ایسے لوگوں کے بیچ پھر کوئی کیا بات کرے ؟خوابوں کی ، خیالوں کی ، نئی دنیاوں کی ، کوئی کیا تصویر بنائے ؟خوشبوؤں ، روشنیوں اور آئینوں کی ، کوئی کیا کہانیاں سنائے؟ افضل تو یہ ہے کہ ایسے سمے ، جب کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے تو درویشی کی چادر اوڑھ کر آدمی گوشہ نشینی اختیار کر لے مگر ، اگر ، ہر سوچنے ، سننے اور سمجھنے والا ایسا کرنے کی سوچ لے گا اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی خانقاہ بنانے لگے گا تو بولنے والوں کے جم غفیر میں حجت تمام کرنے والے نہیں بچیں گے ۔ قدرت کا یہ قانون ہزاروں سال سے ہر عہد میں ہزاروں بولنے والوں کے مدمقابل دوچار سوچنے ، سننے اور سمجھنے والے کھدر پوش کھڑے رکھتا ہے کہ حجت تمام ہوجائے اور زمین جب لہو رنگ ہونے لگے تو بہتے ہوئے خون کا ہر حق ، ناحق قطرہ گواہی دے سکے کہ بولنے والوں کے مقدر میں تو عمل پیہم کے بیج نہیں ہوتے ، پر ، مگر ، اگر ، سوچنے ، سننے اور سمجھنے والے بھی آخری ساعتوں میں سوچتے ، سنتے اور سمجھتے ہی رہ گئے اور زمانے کے اشارے نہ سمجھ پائے اور آخری ساعتوں میں عملی قدم نہ اٹھا پائے تو ان کی تمام عمر کی ریاضت نے رائیگاں چلے جانا ہے ۔
کسی بھی نسل ، کسی بھی قوم ، کسی بھی عہد پر ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب سب کچھ بدل رہا ہوتا ہے ،سب کچھ بدلنے والا ہوتا ہے ،اوپر سے نیچے ہونے والا ہوتا ہے ۔ تاریخ ، جغرافیہ،تہذیب، ثقافت، سبھی کچھ اتھل پتھل ہورہا ہوتا ہے،اس وقت نہ بولنے والوں کا جادو چل پاتا ہے،نہ سوچنے والوں کو مہلت ملتی ہے،یہ وقت عمل کا ہوتا ہے،یہ وقت عمل
کا ہے،بہت بول لیا گیا،بہت بولا دیا گیا ،بہت سوچ لیا گیا ،بہت سن لیا گیا ،گفتار نہیں،کردار کے غازیوں کی ضرورت ہے،تالیاں بجانے والوں اور ہاں میں ہاں ملانے والوں کی نہیں،عمل کے شاہینوں کی ضرورت ہے۔تقریروں ، مباحثوں ، قراردادوں ، مذمتوں کی نہیں ، ہر محاذ پر مدلل ، مضبوط ، متوازن اور کاری وار کی ضرورت ہے۔اوپرسے نیچے تک ،اپنی ہر صف میں سے غداروں اور منافقوں کی صفائی کی ضرورت ہے ۔ یہ وقت ہاتھ سے نکل گیا،یہ ساعتیں یونہی گزر گئیں تو پچھتاوے کا وقت بھی نہیں ملے گا،اب کی بار ندامت اور پشیمانی کے آنسو بہانے کی بھی فرصت نہیں ملے گی ۔بولنے ، سننے اور سوچنے کا لمحہ نہیں ، یہ عمل کی گھڑی ہے ۔ میں تو حسب توفیق ، اپنے تئیں حجت تمام کررہا ہوں ۔ باقی جو آپ کی مرضی ؟ باقی جو اللہ کی منشا ۔ بڑے بڑے عہد تمام ہوئے میں اور آپ کس گنتی میں ہیں؟؟؟ ۔