Feeling speechless but honoured
عابدہ حسنات لندن
شام یا صبح کے وقت، آدھے گھنٹہ کی واک میرا روز کا معمول ہے۔ پیدل اور سائیکل چلانے والوں کے لیے ،ایک راستہ بنا ہوا ہے جہاں بہت لوگ اپنے کتوں کو یا فیملی کے ساتھ واک کرنے کے کیے آتے ہیں۔ ان میں اکثر تعداد بزرگ حضرات کی ہوتی ہے جن سے مسکرا کا “ہیلو ہائے” کرنا سبھی کا معمول ہے۔ یعنی بہت friendly root ہے۔ مگر ندی میں گندی مچھلی بھی ہوسکتی ہے۔ اس راستہ کے پاس ایک خاصی عمر کا “گورا”رہتا ہے جو کسی بھی راہ چلتی اسکارف والی عورت کو دیکھ کر اوّل فُول بکتا ہے۔ میرے ساتھ بھی اس نے ایک آدھ بار ایسا کیا مگر میں نے نظر انداز کردیا۔ لیکن اس بار میری بیٹی جو کہ ویل چئیر میں تھی اور اسکی عمر صرف نو برس ہے، اسے دیکھ کر بھی وہ باز نہیں آیا۔ میں نے نہ صرف 101 پر پولیس کو رپورٹ کی بلکہ اپنے مقامی فیس بک گروپ پر بھی اس کے بارے میں لکھا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب مقامی لوگ جمع ہوئے کہ ہم اب تمہارے ساتھ واک کرینگے۔ اور دوسرے علاقہ سے بھی لوگوں نے رابطہ کیا ہے کہ اب سب باری باری میرے ساتھ واک کرینگے۔ what’s appپر لوکل لوگوں نے ایک گروپ تشکیل دیا ہے جو اس مقصد کے لیے ہے کہ میں جب بھی والک کرنے جاؤں ،اس میں بتا دوں تو جو بھی فرد فارغ ہوگا وہ وہاں آجائے گا۔ اللہ اکبر۔ اس انسانیت پر قربان جاؤں۔ ان سب کے کیے دل سے ہدایت کی دعائیں نکل رہی ہیں۔