اس کے گھر اس کی والدہ کی تعزیت کیلیے بےنظیر بھٹو آ رہی تھیں۔ پریشانی یہ تھی کہ کامریڈ جام ساقی کے گھر کوئی صوفہ نہ تھا۔ میں نے پوچھا، کرسی تو ہوگی؟ کہا، بس ایک پرانا پلنگ ہے۔
لمبی ٹوٹی پھوٹی گلی سے گزر کر بےنظیر بھٹو اپنے جیالوں کے لشکر کے ساتھ کامریڈ کی بیٹھک میں داخل ہوئیں۔ اور سیدھی آ کر پلنگ پر بیٹھ گئیں۔ سامنے چپ کھڑے کامریڈ کو تعزیتی انداز میں مخاطب کیا۔
کامریڈ آپ کی والدہ کا بہت افسوس ہوا۔
کامریڈ ایک اداس مسکراہٹ مسکرایا۔۔۔ مجھے آپ کے آنے کی بہت خوشی ہوئی ہے بی بی! آپ کا بہت بہت شکریہ۔ آپ کی کیا خدمت کروں۔
میں دل ہی دل میں گھبرا گئی کہ کامریڈ اس پورے لشکر کی کیا خدمت کرے گا!
جواب میں بےنظیر نے ایک ایسی بات کہی جس نے مجھے ایک چھوٹا سا ہنر سکھا دیا انسانی معاملات کا۔
ان دنوں ابھی منرل واٹر بمشکل کراچی تک پہنچا تھا۔ حیدرآباد میں ابھی دستیاب نہ تھا۔ عام لوگ نلکے کا پانی پیتے تھے جس کا رنگ میلا میلا سا ہوتا تھا۔ جو لوگ ان معاملات میں حساس تھے وہ پانی بوائل کرتے تھے۔
بینظیربھٹو کے پینے کے لیے منرل واٹر کی بوتل قریب کھڑی کسی ورکر (شاید ناھید خان!) کے ہاتھ میں تھی۔ بینظیربھٹو نے بڑے سکون سے کامریڈ کو مخاطب کرکے کہا ۔۔۔۔۔۔ میں صرف آپ کے گھر کا پانی پیوں گی کامریڈ!
جب تک کامریڈ پانی لاتا، اس سے پہلے ہی بینظیربھٹو کو ان کا اپنا منرل واٹر پیش کیا گیا۔ بینظیر نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور کامریڈ جو مٹیالا سا زرد رنگ پانی بےحد سادہ سے گلاس میں لایا وہ بڑے سکون کے ساتھ پی کر کامریڈ کا شکریہ ادا کیا۔
پھر پوچھا کہ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے!
کامریڈ ایک پرسکون سی مسکراہٹ مسکرایا اور کہا آپ آئیں یہی بہت ہے ۔۔۔۔۔
بینظیر کے جانے کے بعد میں نے اسے مشورہ دیا کہ بینظیربھٹو سے اپنے لیے کچھ فائدے بھی لو۔ حق پہنچتا ہے تمہیں۔
جواب میں وہ انکار میں سر ہلا کر ہنس دیا۔
یہ دنیا کامریڈ جام ساقی اور بینظیربھٹو جیسے لوگوں کے لیے اب رہی بھی نہیں۔ اب نہ کوئی زمین سے نکلتا ہوا میلا پانی پینے والا رہا ہے اور نہ ہی زمین کا مٹیالا پانی پلانے والا۔ نہ وہ جام رہا اب جس میں دھرتی کا پانی پیا جائے۔ نہ وہ ساقی رہے اب جو دھرتی کا پانی پلاتے تھے
نور الہدی شاہ