جانے وہ کب آئے گی۔۔۔
شازیہ عندلیب
اس کے روشن اور دلکش وجود پر سبھی فدا ہیں۔وہ جہاں جاتی ہے ہر جانب خوبصورتی بکھر جاتی ہے۔وہ ہے ہی ایسی نرم و نازک۔اس کے وجود سے آس پاس کے ماحول میں ایک ایسا سحر انگیز فسوں طاری ہو جاتا ہے جو دیکھنے والوں کو مسحور کر دیتا ہے۔اسے دیکھتے ہی جوانوں کو ٹھنڈ پڑ جاتی ہے جبکہ عمر رسیدہ افراد اور کمزور دلوں پر لرزہ سا طاری ہونے لگتا ہے۔وہ صرف عام لوگوں میں ہی مقبول نہیں بلکہ خاص لوگ اور خصوصاً فلم اسٹارز شاعر اور شو بز کے لوگ بھی اس کے پرستار ہیں۔وہ اسکے ساتھ تصاویر اور فلمیں بنوانا بہت پسند کرتے ہیں۔باذوق اورحسن پرست لوگوں کو وہ جہاں مل جائے وہ اسکے ساتھ تصاویر بنواتے ہیں اور گیت بھی گاتے ہیں۔ہو بھی کیوں نہ وہ تو ملتی بھی نصیبوں والوں کو ہی ہے۔وطن عزیز میں تو بہت کم ملتی ہے۔اور جہاں ملتی ہے لوگ بڑے ذو ق وشوق سے اسے دیکھنے جاتے ہیں جو جا نہیں سکتے وہ محض آٹھنڈی آہیں ہی بھر کے رہ جاتے ہیں۔جو لوگ اسے دیکھنے جاتے ہیں اسکے ساتھ یادگار کے طور پر تصاویر اور وڈیوز ضرور بناتے ہیں تاکہ اس سے بچھڑنے کے بعد اسے دیکھ کر اپنا دل بہلا سکیں۔
سنا ہے وہ اوسلو میں آ چکی ہے مگر اپنے شہر کے مکیں ابھی تک اسکے منتظر ہیں۔جانے وہ کب یہاں آئے گی۔حالانکہ اوسلو سے ہمارے شہر کا فاصلہ صرف ایک گھنٹہ ہی تو ہے۔اس شہر کا ہر خوش ذوق فرد اسکی آمد کا منتظر ہے۔اسکے آنے سے موسم سرماء کی طویل اور اندھیری راتیں روشن خوبصورت اور با رونق ہو جاتی ہیں۔وہ آجائے تو ہرجانب اجالا ہو جائے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
چلی بھی آؤ کہ راہوں میں روشنی ہو جائے
تمہارے دم سے اندھیرے میں اجالا ہو جائے
اسکی آمد کی خبر سن کر کئی اداس دلوں کی کلیاں کھل اٹھی ہیں۔لوگوں نے اسکے استقبال کے لیے اپنے بہترین لباس اور لحاف نکال کے رکھ لیے۔سمور پشمینہ اور خوبصورت دلکش رنگوں کی پوشاکیں رکھے لوگ اسکے منتظر ہیں۔ محکمہء موسمیات نے یہ آس دلائی ہے کہ وہ اسی ہفتے میں صوبہ اوسفولڈ آئے گی اور چار ماہ کی مختصر مدت کے لیے یہاں ٹھہرے گی۔
اسکی آمد کی دھوم دور دور تک مچی ہوئی ہے۔
چلی بھی آؤ اے برف باری
۔کب آئے گی اس شہر کی باری
جلدی بھی کرو ایسی بھی کیا ہم سے ہے بیزاری۔
کیوں تم نے لگا رکھی ہے صرف پربتوں سے ہی یاری۔