راجہ محمد عتیق افسر
اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات قرطبہ یونیورسٹی پشاور
03005930098, attiqueafsar@yahoo.com
تاریخ کے دریچے سے اپنے درخشاں ماضی میں جھانکتے ہیں ۔عرب کا لق و دق صحرا ہے اور شدید گرمی ہے ۔ اسی صحرا کے درمیان ایک خطہ ایسا بھی ہے جسے اللہ نے زرخیزی عطا کی ہے ۔اسی زرخیزی کے سبب یہاں ایک بستی آباد ہے اور اہل بستی کھجور کی پیداوار کے ذریعے اپنی گزر اوقات کرتے ہیں ۔ ان کی معیشت کا دارومدار زراعت پہ ہے اور زراعت میں بھی کھجور ان کی معیشت کی علامت ہے ۔موسم کی شدت ہے اور کھجور کی فصل پک کر تیار ہونے والی ہے۔ اس برس پھل بھی زیادہ ہے اور اہل بستی کو امید ہے کہ اس سال کی فصل سے ان کی معاشی حالت پہلے سے بہتر ہو جائے گی ۔ ابھی فصل کے حاصل ہونے کی خوشی قریب ہی تھی کہ ایک خبر رساں نے خبر دی کہ ان کا دشمن جو ہزاروں میل کی مسافت پہ بیٹھا ہے انہیں نیست ونابود کرنے کے لیے اپنی عسکری قوت کو مجتمع کر رہا ہے ۔ یہ خبر ان پہ بجلی بن کر گرتی ہے ۔ اہل بستی اضطراب کی کیفیت میں آ جاتے ہیں ۔ ان کے سامنے دو صورتیں ہیں جن میں سے انہیں کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ فصل کے پکنے کا انتظار کیا جائے اور اپنی معاشی حالت کو بہتر بنایاجائے اور بہتر معاشی حالت میں بہترین وسائل کے ہمراہ دشمن سے لڑا جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اپنی معاشی کمزوری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی بقا کی خاطرمیسر وسائل کو جمع کر کے نکلا جائے اور دشمن کو اسی کے گھر پہ ہی جا لیا جائے ۔یہ اہل بستی کی خوش نصیبی ہے کہ انہیں دنیا کا سب سے بہترین انسان بطور حکمران ملا ہے ۔ ان کا قائد اس نازک صورتحال میں فیصلہ کرتا ہے کہ اپنی معاشی ابتری کا رونا رونے کے بجائے اپنی بقا کی فکر کی جائے اور معاشی خودکفالت کی طرف لپکنے کے کے بجائے اپنی بقا کی خاطر موجودہ وسائل کے ساتھ دشمن کی خبر لی جائے ۔ قوم اگر عزت و ناموس کے ساتھ زندہ رہے گی تو معیشت میں خوشحالی کے اور مواقع بھی پائے گی ۔ اگر قوم باقی نہ رہی یا وہ کسی کی محکوم ہو جائے تو ان کی معاشی ترقی بھی انہیں فنا ہونے سے نہیں بچا سکتی۔
اس سرزمین کو کھجور وارلی زمین بھی کہا جاتا تھا کسی دور میں اس کا نام یثرب بھی تھا اور ہم اسے مدینہ منورہ کے نام سے بھی جانتے ہیں ۔اور اس کے قائد خیر البشر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں ۔ یہ غزوہ ٔ تبوک کا واقعہ ہے جب اس وقت کی عظیم قوت (سپر پاور) سلطنت ِ روم نے ریاست مدینہ پہ حملے کا منصوبہ بنایا تھا اور فوج جمع کرنا شروع کر دی تھی سلطنت روم اس وقت ایک سیاسی و اقتصادی قوت تھی اس کی بڑی فوج تھی جو ہر قسم کے جدید ہتھیاروں سے لیس تھی ۔ کیل کانٹے سے لیس لاکھوں کی فوج کے ساتھ لڑنا دیوار سے سر ٹکرانے کے مترادف تھا لیکن جو فیصلہ سرور عالم ﷺ نے کیا وہ تا قیامت امت مسلمہ کے لیے جادۂ و منزل کی حیثیت رکھتا ہے ۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو ِ تماشائے لبِ بام ابھی
لہذا نفیر ِعام ہوئی اور جنگ کے قابل ہر مرد و زن ، پیر و جواں کو کوچ کا حکم دیا گیا ۔ جن کے دلوںمیں ایمان سرائیت چکا تھا وہ لشکر کا حصہ بنے اور جن کے دل میں نفاق تھا وہ فکر ِمعاش کے فریب میں آگئے ۔ اس مہم جوئی کا نتیجہ یہ نکلا کہ سلطنت روم کا لشکر ابھی مجتمع بھی نہیں ہوا تھا کہ سالار عرب ﷺ اپنے جان نثاروں کی معیت میں روم کی سرحد پہ واقع تبوک میں پہنچ چکے تھے ۔ قیصر روم کو معلوم ہو گیا کہ انہوں نے تو حملے کا سوچا تھا یہ قوم تو ہمارے سر پہ آن پہنچی ۔
ہمارا نرم رو قاصد پیام زندگی لایا
خبر دیتی تھیں بجلیاں جن کو بے خبر نکلے
اس اچانک حملے نے اہل روم پہ ایسی دھاک بٹھا دی کہ وہ اپنی فوجیں لے کر میدان میں آئے ہی نہیں ۔ اور اس کے بعد چند ہی برسوں میں مسلم فوج نے سلطنت روم کے بڑے حصے کو فتح کر لیا یہاں تک کہ ان کے دارالحکومت قسطنطنیہ کا محاصرہ بھی کر ڈالا جو صلح کی شرائط پہ اٹھا یا گیا۔ سیرت کے اس پہلو نے ہمارے لئے یہ اصول وضع کر دیا کہ اگر دشمن آپ پر حملے کا ارادہ رکھتا ہو اپنی بقا اور سالمیت کو معیشت کی بہتری پہ ترجیح دیتے ہوئے دشمن کو بغیر کسی تساہل کے جواب دینا ہے ۔ اس اصول کی افادیت کو غیر مسلموں نے بھی تسلیم کیا ہے اور اسے اپنایا بھی ہے ۔
اب لوٹ کر ذرا دیر کے لئے حال میں واپس آتے ہیں ۔ ریاست پاکستان ہے جو مدینہ منورہ کے بعد اسلام کے نام پہ قائم ہونے والی دوسری ریاست ہے ۔ یہاں بیس کروڑ سے زائد آبادی کا تعلق امت مسلمہ سے ہے ۔سدا بہتے دریا اور دنیا کا سب سے بہترین نہری نظام اس ریاست میں ہے دنیا کی سب سے بہترین فوج اس کا سرمایہ افتخار ہے اور اس پہ مستزاد اسکی جوہری قوت اسے ناقابل تسخیر بھی بناتی ہے ۔ اس سے متصل ہی ریاست جموں و کشمیر ہے جس پر پاکستان کا اپنے ہی پڑوسی مگر دشمنِ جان بھارت سے تنازعہ ہے ریاست جموں و کشمیر کی مسلم اکثریت پاکستان سے الحاق کی خواہاں ہے جنکہ بھارت کی فوج نے ریاست پہ جبری تسلط جما رکھا ہے ۔ 1947 سے لے کر اب تک چھے لاکھ سے زائد کشمیریوں کی جانوں سے کھیلا جا چکا ہے ، لاکھوں ہجرت پہ مجبور ہوئے ، ہزاروں خواتین کی بے حرمتی کی گئی ۔اور اب بھی بھارت کی آٹھ لاکھ سے زائد فوج وہاں موجود ہے ۔ اگست 2019 میں بھارت کی حکمران جماعت نے آئینی ترمیم کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم کر دی اور بھارتی جبر و زیادتی کو آئینی تحفظ فراہم کر دیا ۔اس آئینی ترمیم کے نتیجے میں کشمیر کے عام فرد سے لے کر سیاستدانوں تک نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ۔ خدشہ ہے کہ اس آئینی ترمیم کا سہارا لے کر بھارت سرکار کشمیر میں بدترین قتلِ عام کے ذریعے مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کرے گی ۔ کشمیریوںکی آواز دبانے کے لئے اگست سے لے کر اب تک کرفیو نافذ ہے ۔ سو روز سے زائد گزرنے کے باوجود کشمیری عوام کے جذبہ ٔ حریت میں کمی نہیں لائی جا سکی ۔ کشمیری عوام اور آزاد ریاست جموں و کشمیر کی حکومت کی جانب سے حکومت پاکستان کو فوجی حملے کی دعوت بھی دی جا چکی ہے لیکن ریاست پاکستان کے حکمران نے معاشی کمزوریوں کا رونا رو تے ہوئے فرمایا ہے کہ جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ۔بلکہ انہوں نے کشمیری نوجوانوں سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ مظلوموں کی مدد کے لیے سرحد عبور کرنے سے گریز کریں ورنہ دنیا ہمیں دہشت گرد کہے گی ۔ یاد رہے کہ ارض فلسطین پہ یہود کی قائم کردہ اسرائیلی ریاست کی خاتون وزیر اعظم گولڈامئیر نے اپنے دور ِاقتدار میں اسلحے کی خریداری کے لیے اپنی کابینہ اور اسمبلی کی رائے کے برخلاف یورپی ممالک سے بھاری سود کے عوض قرضہ لیا تھا حالانکہ اس وقت اسرائیل کی معاشی حالت بہتر نہ تھی ۔ بعد میں اسرائیلی وزیر اعظم نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ یہ سخت فیصلہ انہوں نے اپنے دشمنوں کے پیغمبر ﷺ سے متاثر ہو کر کیا ۔ جب پیغمبر انقلاب کا انتقال ہوا اس وقت ان کے گھر میں چراغ جلانے کے لیے تیل نہ تھا اور ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ پڑوس سے تیل ادھار لے کر آئی تھیں لیکن اسی وقت نبی ﷺ کے گھر میں نو تلواریں لٹک رہی تھیں ۔ گویادفاع معیشت پہ مقدم ہے اور اپنے سے طاقتور عربوں کے مقابلے کے لیے اسلحہ ناگزیر تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے عربوں کی سر زمین پہ اپنا ناجائز وجود برقرار رکھا ہوا ہے ۔ ادھر ہم ہیں کہ اپنی شہ رگ کے دفاع کے لیے پس و پیش کر رہے ہیں ۔ پاکستان کی عسکری قیادت نے آخری فوجی اور آخری گولی تک کشمیریوںکا ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا لیکن حکومت کی جانب سے غیر سنجیدگی کا عالم ہے کہ کشمیری عوام کی آنکھیں پہلے فوجی کے انتظار میں ہی پتھرائے جا رہی ہیں ۔ اگر حکومت ہوش کے ناخن نہ لے تو عوامی احتجاج اسے جگا سکتا ہے لیکن یہاں سیاستدانوں کا یہ حال ہے کہ ایسی نازک صورتحال میں دھرنے کے نام پہ نورا کشتی برپا کی گئی اور میڈیا کی تمام توجہ کشمیر سے ہٹائی گئی ۔
تیرے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزہ دیا
اب ایک بار پھر ریاست مدینہ کا رخ کرتے ہیں نفیر عام ہوتے ہی اہل ایمان اور اہل کفر کی تقسیم واضح ہو جاتی ہے ۔ اہل ایمان اپنے قائد کے حکم کی تعمیل میں جت جاتے ہیں اور منافقین اور غیر مسلم اسے نادانی قرار دیتے ہیں ۔اہل ایمان کی صفوںمیں اتحاد و یگانگت پیدا ہوتی ہے ۔ ایثار و قربانی کے جذبات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔اپنی بقا اور حاکمیت قائم رکھنے کے لئے اپنی سب سے قیمتی متاع لا کر تبوک روانہ ہونے ولے لشکر کی زاد راہ کے لئے جمع کیا جاتا ہے ۔ یہی وہ غزوہ ہے جس میں حضرت عمر ؓ اپنے مال کا نصف اس لشکر کے لئے لے آتے ہیں اور صدیق اکبر اپنا سب کچھ لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ہیں ۔ حضرت عثمان غنی ؓنے فقید المثال مالی عطیہ فراہم کیا ہے ۔ دیگر اصحاب ِ نبی بھی حتی المقدور ایثار کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ اس کے بدلے میں نبی مہربان ﷺ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام کی بشارتوں سے نواز رہے ہیں ۔ یہ نبی آخر الزماں ﷺ کے عاشق ہیں جو نبی کے ہر قول اور ہر فعل کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں ان کے ہر حکم پہ اپنی جان نچھاور کرتے ہیں صحابہ ؓکی انہی اداؤں کی بدولت ہی تو اللہ ان سے راضی ہے ۔
ادھر ریاست پاکستان ہے اگست سے اب تک عیدلاضحٰی گزری ، محرم الحرام گزرا اور اب ربیع الاول ہے ۔ عشق نبی کا دعوی ٰ کرنے والے بیس کروڑ سے زائد مسلمانوں نے بھی مسابقت کا مظاہرہ کیا لیکن کہاں ۔ عید قرباں کے دن بھی ہم نے ایک دوسرے سے زیادہ مہنگا جانور ذبح کر کے دکھانے میں مسابقت کی گئی ۔ محرم کے ایام میں بھی سبیلوں اور دیگوں میں مسابقت کی گئی اور اب ربیع الاول میں بھی قمقموں جھنڈیوں اور دیگوں میں مسابقت جاری ہے۔جلسے جلوسوں اور دھرنوں میں جھوٹ ،ریاکاری، الزام تراشی ، گالی گلوچ اور واحیات ناچ برپا ہیں اور ان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی سعی جاری ہے ۔ کہیں قوم کو مذہبی فرقوں کی بنیاد پہ تقسیم کیا گیا اور کہیں صوبائی اور لسانی بنیادوں پہ تقسیم کیا گیا اور اس نازک وقت میں جب اتحاد و یگانگت کی ضرورت تھی ایک دوسرے کے درمیان تفریق کی لکیروں کو مزید گہرا اور پختہ کیا گیا ۔سیاسی و مذہبی مداریوں نے تماشے سجا رکھے ہیں اور عوام تماشائی بنے داد دیتے جا رہے ہیں ۔ عالم اور جاہل کا فرق ختم ہو گیا ہے اور جسے دیکھو دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکروںمیں اسوہ ٔرسول کو پامال کر رہا ہے ۔ کشمیری مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کے لیے، انہیں سامان دفاع فراہم کرنے کے لئے نہ کوئی سرکاری اپیل ہوئی اور نہ ہی نجی طور پر بڑھ چڑھ کر کار خیر میں مسابقت کی گئی۔ حیرت تو اس بات کی ہے کہ کہ دعوے تو عشق رسول کے کیے جاتے ہیں اور عمل فرامینِ رسولﷺ سے متصادم ہے ۔ گفتار کے غازی اور تقریر کے سلطان نظر آتے ہیں لیکن کردار کا مرد مجاہد کہیں کھو گیا ہے ۔ درو دیوار پہ مادی اشیا کی نمائش کر کے، انواع و اقسام کے کھابے تیار کر کے اور تناول کر کے ہم خود کو محب رسول ﷺ ثابت کرنے کے چکروں میں وقت گزارتے رہے ہیں اور ادھر ہمارے بھائی ہماری مدد کے منتظر بیٹھے دشمن کے ستم جھیل رہے ہیں ۔
تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا
میں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
کیا عشقِ رسول اور حبِ رسول ﷺ ہمارے ارباب اختیار سے یہ تقاضا نہیں کرتے کہ معاشی ابتری کا رونا رونے کے بجائے غیرت ایمانی کا مظاہرہ کیا جائے اور میسر عسکری وسائل کے ساتھ کشمیری عوام کی مدد کو پہنچا جائے ؟ کیا حبِ رسول ﷺ یہ تقاضا نہیں کرتے کہ اس نازک صورتحال میں اپنی ہی حکومت کو گرانے کے لئے نوراکشتی اور دھرنے کرنے کے بجائےاتحاد و یگانگت کی فضا ء قائم کی جاتی اور قوم کو دشمن کے ساتھ ٹکرانے کے لیے تیار کیا جاتا؟ کیا حب رسول ﷺ عوام و خواص سے یہ تقاضا نہیں کرتا کہ اس نازک صورتحال میں اپنی تمام تر ترجیحات اور معمولات کو پسِ پشت رکھا جاتا اور کشمیر کی آزادی کو اپنی اولین ترجیح بنایا جاتا؟ کیا حبِ رسول ﷺ حکمرانوں اور عامۃ ُالناس سے یہ تقاضا نہیں کرتا کہ ایام کی مناسبت سے انواع و اقسام کے طعام اور آرائشی سامان پہ اخراجات کرنے کے بجائے کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے لیے عطیات جمع کیے جاتے اور ان مظلوم عوام کے لیے دفاعی سامان مہیا کیا جاتا ، اور اسی میں ایک دوسرے سے مسابقت کی جاتی ؟ کیا حب رسول یہ تقاضا نہیں کرتا کہ امت مسلمہ سے وابستہ افراد خصوصا علماء اورسیاست دان نبی اکرم ﷺ کی سیرت کو معیار بناکر اعلیٰ اخلاقی اقدار کا مظاہرہ کریں اور عوام کو بھی اس کی تربیت دیں ؟اگر ہم فی زمانہ حبِ رسول ﷺ کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں تو پھر ہم اپنے دعوے میں بھی جھوٹے ہیں ۔ اس وقت سیرت ِسرورِعالم ﷺ ہم سے مطالبہ کر رہی ہے کہ ہم جھوٹ، ریا کاری ، بزدلی ، تساہل ، بخل ، فسق و فجور اور بھکاری پن کو چھوڑ کر نبی مکرم ﷺ کے اعلیٰ اخلاق کو اپنا لیں اور دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں ۔یہی ہمارے رب کو مطلوب ہے۔ آج اگر ہم نے سیرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے مطابق لہو رنگ کشمیر کے زخموں پہ مرحم نہ رکھا تو روزِ قیامت جب میدان حشر میں اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کے سامنے اسلامیانِ کشمیر اپنا مقدمہ رکھیں گے ، کیا اس وقت محض عشقِ رسول کا دعویٰ کرکے ہم ساقیٔ کوثر کے ہاتھ سے جام کوثر کے حقدار ٹھہریں گے ؟
انّ اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کأنھم بنیان مرصوص
بلا شبہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو اسکی راہ میں سیسہ پلائی دیوار کی مانند لڑتے ہیں