اداکارہ وینا ملک سمیت کئی لوگوں کا پرویزمشرف کی طرف سے 1979 میں خانہ کعبہ آزاد کرانے کا دعویٰ لیکن حقیقت کیا ہے؟ وہ بات جو آپ کو بھی جان لینی چاہیے

اداکارہ وینا ملک سمیت کئی لوگوں کا پرویزمشرف کی طرف سے 1979 میں خانہ کعبہ آزاد کرانے کا دعویٰ لیکن حقیقت کیا ہے؟ وہ بات جو آپ کو بھی جان لینی چاہیے

سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو خصوصی عدالت کی  طرف سے سزا ملنے کے بعد کچھ لوگ خاموش ہیں ، حلقہ اقتدار سے اس کیخلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں تو سوشل میڈیا پر بھی ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جارہاہے ،

ایسے میں اداکارہ وینا ملک سمیت کچھ لوگوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پرویز مشرف نے  خانہ کعبہ پر اسلام دشمنوں کا حملہ ناکام بنایا واحد فوجی ہے جس نے خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑے ہوکر جعلی امام مہدی سے آزادی دلائی،اس کے علاوہ بعض وفاقی وزرا بھی پرویز مشرف کی بےگناہی ثابت کرنے کے لیے کچھ ملتے جلتے بیانات دے رہے ہیں۔

وینا ملک نے لکھا کہ” پرویز مشرف وہ ہےجس نے خانہ کعبہ پر اسلام دشمنوں کا حملہ ناکام بنایا واحد فوجی ہے جس نے خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑے ہوکر آذان دی ،بھلا وہ شخص اسلامی جمہوریہ پاکستان سےغداری کیسے کرسکتا ہےجو کشمیریوں کی خاطر کارگل میں کئی روز سب سے اگلے مورچے میں دشمن کو للکارتا رہا”۔

انڈی پنڈنٹ اردو کے مطابق 20 نومبر 1979 کی صبح نمازِ فجر کے بعد جہیمان العتیبی نامی ایک سعودی سابق فوجی نے اپنے 400 ساتھیوں کے ہمراہ خانۂ کعبہ پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا اور وہاں موجود ہزاروں نمازیوں کو یرغمال بنا لیا۔ جہیمان کا دعویٰ تھا کہ اس کے ایک ساتھی محمد القحطانی مہدی ہیں اور تمام عالمِ اسلام پر فرض ہو گیا ہے کہ وہ ان کے ہاتھ پر بیعت کر لیں۔

سعودی حکومت نے ان دہشت گردوں سے خانۂ کعبہ کو چھڑانے کے لیے متعدد کوششیں کیں، پولیس بھیجی، فوجی دستے بھیجے، کمانڈو ایکشن کرنے کی کوشش کی، لیکن جہیمان نے مسجد الحرام کے میناروں پر مشین گنیں نصب کر رکھی تھیں، اس لیے جو بھی قریب آتا تھا، اسے گولیوں سے بھون دیا جاتا تھا۔آخر سعودی حکومت نے فرانس سے رابطہ کیا اور وہاں سے تین خصوصی کمانڈو سعودی عرب پہنچ گئے۔ انہوں نے پہلے خانۂ کعبہ کی دیواروں میں بارود سے سوراخ کیے، پھر بےہوشی کی گیس چھوڑی اور اسی دوران ہلہ بول کر دہشت گردوں کو قابو کر لیا۔

اس واقعے کے کچھ ہی عرصے کے بعد اس قسم کی اطلاعات گردش میں آ گئیں کہ پاکستانی کمانڈوز نے آپریشن میں حصہ لیا تھا۔ جب جنرل مشرف اقتدار میں آئے تو یہ بھی کہا جانے لگا کہ ان کمانڈوز میں وہ بھی شامل تھے۔2016 میں ایک نجی چینل کے اینکر جاوید چودھری کے پروگرام میں پاکستانی سیاست دان احمد رضا قصوری نے بھی اسی قسم کا دعویٰ کیا کہ ’میجر پرویز مشرف نے کعبہ سے دہشت گردوں کو فلش آؤٹ کیا۔‘ لیکن اس دعوے کی تردید میں دیر نہیں لگی۔

چند منٹوں کے اندر اندر اسی پروگرام کے دوران بریگیڈیئر جاوید حسین نے فون کر کے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور پاکستانی کمانڈوز اس کارروائی میں شامل نہیں تھے۔

رپورٹ کے مطابق  اگر پرویز مشرف نے اس کارروائی میں حصہ لیا ہوتا تو وہ اس کا ذکر اپنی آپ بیتی ’ان دا لائن آف فائر‘ میں ضرور کرتے۔ اس کتاب میں انہوں نے 1979 کے متفرق واقعات تو لکھے ہیں لیکن مکہ میں ہونے والے کسی آپریشن کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ کتاب کے صفحہ نمبر 65 پر لکھتے ہیں کہ 1978 میں وہ لیفٹیننٹ کرنل بن گئے تھے (1979 میں بطور ’میجر‘ مشرف والی تھیوری تو یہیں غلط ثابت ہو گئی)۔

اسی صفحے پر آگے چل کر وہ فرماتے ہیں کہ 1979 میں ان کی پوسٹنگ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج میں بطور انسٹرکٹر ہو گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت حال میں ان کی بطور ’میجر کمانڈو‘ مکہ میں تعیناتی خارج از بحث ہو جاتی ہے۔وہ 1979 کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے یہ تک بتاتے ہیں کہ انہوں نے سٹاف کالج میں بغیر پرچی کے تقریر کرنے کا ہنر کیسے سیکھا اور کیسے 15 مختلف ملکوں سے آئے ہوئے فوجیوں کے ساتھ بڑا یادگار وقت گزارا۔ اگر کوئی ذکر نہیں تو خانۂ کعبہ پر حملے اور اسے جعلی مہدی کے حامیوں سے چھڑوانے کے کارنامے کا۔

اور ویسے بھی آپ اور ہم جس پرویز مشرف کو ہم جانتے ہیں، وہ اپنے سید ہونے پر ناز کرتے ہیں اور بصد فخر کہتے ہیں کہ میرے لیے خانۂ کعبہ کا دروازہ کھولا گیا تھا لیکن یہ خود ان سے کبھی نہیں سنا کہ خانہ کعبہ کو آزاد کروانے میں کردار ادا کیا۔

اد رہے کہ   خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ عدالت نے مشرف کو فرار کرانیوالوں کیخلاف بھی کارروائی کا حکم دے دیا۔ خصوصی عدالت کے 3 رکنی بنچ نے دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے سزائے موت کا فیصلہ دیا جبکہ جسٹس نذر اکبر نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے مشرف کو بری کیا اور اختلافی نوٹ میں کہا استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ 44 صفحات پر مشتمل ہے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کو دفاع کا موقع دیا گیا، ملزم پر تمام الزامات ثابت ہوتے ہیں، دستاویزات میں واضح ہے ملزم نے جرم کیا، پرویز مشرف سنگین غداری کے مرتکب پائے گئے، تمام الزامات کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہوتے ہیں، ہائی ٹریزن ایکٹ 1973 کے تحت مشرف کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے، ملزم کو ہر الزام پر علیحدہ علیحدہ سزا دی جاتی ہے

فیصلے میں سیکیورٹی اداروں کو پرویز مشرف کی گرفتاری کا حکم دیا گیا۔ تفصیلی فیصلے کے پیرا نمبر 66 میں جسٹس سیٹھ وقار نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پرویز مشرف کو گرفتار کرکے سزا پر عمل درآمد کی ہدایت کی اور لکھا کہ اگر وہ انتقال کر جاتے ہیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک پر تین روز تک لٹکائی جائے۔

جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار کے مثالی سزا سے متعلق پیرا گراف سے اختلاف کیا اور کہا مثالی سزا کی قانون میں گنجائش نہیں ہے، یہ غیر آئینی ہوگی۔ تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، پرویز مشرف کے کریمنل اقدام کی تفتیش کی جائے، آئین عوام اور ریاست کے درمیان معاہدہ ہے، استغاثہ کے مطابق ملزم مثالی سزا کا مستحق ہے،

غداری کیس 2013 میں شروع ہو کر 6 سال بعد ختم ہوا، مشرف کو حق سے زیادہ شفاف ٹرائل کا موقع دیا، کیس کا ریکارڈ رجسٹرار کی تحویل میں رہے گا۔ فیصلے میں بلیک لا ڈکشنری کا حوالہ بھی دیا گیا، بلیک لا ڈکشنری کے تحت غیر آئینی لفظ کی تشریح کی گئی، تفصیلی فیصلے میں آکسفورڈ ڈکشنری کا بھی ذکر کیا گیا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا اعلیٰ عدلیہ نے نظریہ ضرورت متعارف نہ کرایا ہوتا تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، نظریہ ضرورت کے باعث یونیفارم افسر نے سنگین غداری کا جرم کیا۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ جرم کا ارتکاب سنگین غداری کے جرم میں آتا ہے، آرٹیکل 6 عمرانی معاہدے کو چیلنج کرنیوالے کا مقابلہ کرتا ہے، آئین آرمی چیف کو کسی غیر آئینی اقدام کا اختیار نہیں دیتا، ایک لمحے کی بھی معطلی آئین کو اٹھا کر باہر پھینکنے کے مترادف ہے، ملک میں ایمرجنسی لگا کر آئین کو معطل نہیں کیا جاسکتا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ممبران افواج پاکستان سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی قسم کھاتے ہیں، حلف کے تحت ممبران افواج پاکستان آئینی بالادستی، ملک سے وفاداری کے پابند ہیں، افواج پاکستان کے ہر ممبر نے ملکی خدمت کی قسم کھائی ہوتی ہے، افواج کی اعلیٰ قیادت کے ہر ممبر نے آئین کا تحفظ نہ کر کے حلف کی خلاف ورزی کی۔ جج جسٹس نذر اکبر نے فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا۔

جسٹس نذر اکبر نے 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں لکھا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا لہذا انہیں رہا کیا جائے۔انہوں نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ میں نے ادب سے اپنے بھائی وقار احمد سیٹھ صدر خصوصی کورٹ کا مجوزہ فیصلہ پڑھا ہے، میں ادب کے ساتھ صدر عدالت اور اکثریت کی آبزرویشنز اور نتائج سے اختلاف کرتا ہوں۔

جسٹس نذر اکبر نے لکھا کہ پارلیمنٹ نے پہلے خاموشی اختیار کر کے پھر آرٹیکل 6 میں ترمیم کر کے عدلیہ کو دھوکا دیا، اس عمل کا واحد ہدف 3 نومبر 2007 کا اقدام تھا، قومی یا صوبائی اسمبلی میں ایمرجنسی کے نفاذ پر کوئی احتجاج نہیں کیا گیا، ایک بھی رکن پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ میں آواز نہیں اٹھائی۔اختلافی نوٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ قومی اسمبلی نے 7 نومبر2007 کو اپنی قرارداد منظور کر کے ایمرجنسی کے نفاذ کی توثیق کی، بہت سارے پارلیمنٹیرینز وکلاء تھے اور وہ وکلاء تحریک کا حصہ تھے، کسی میں ہمت نا ہوئی کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف پارلیمنٹ میں تحریک لا سکے۔

انہوں نے یہ بھی لکھا کہ پارلیمنٹ نے اکتوبر 99 کی ایمرجنسی کی توثیق نظریہ ضرورت کے تحت کی، اس وقت پارلیمنٹ نے 17ویں ترمیم کے ذریعے مجرم کو سہولت دی، پھر 18 ویں ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 6 میں ترمیم کی گئی، 18 ویں ترمیم کے ذریعہ پارلیمنٹ نے 7 نومبر 2007 کی قومی اسمبلی کی قرارداد کی توثیق کی، 18 ویں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے فیصلہ دیا کہ پرویز مشرف کا 3 نومبر کا اقدام سنگین غداری نہیں تھا۔

جسٹس نذر اکبر نے لکھا کہ 18 ویں آئینی ترمیم منظور کرتے وقت زیادہ تر پارلیمنٹیرین وہی تھے جو 17ویں آئینی ترمیم کے وقت تھے، پارلیمنٹ کا آرٹیکل 6 میں ترمیم کا ارادہ تھا تو اس کا اطلاق ماضی سے ہونا چاہیے تھا، پارلیمنٹ نے سنگین غداری جرم میں ترمیم کر کے 3 نومبر 2007 کے اقدام کی دانستہ توثیق کی۔

خصوصی عدالت کے جج نے اپنے نوٹ میں یہ بھی لکھا کہ غداری کی تعریف کے حوالے سے بلیکس لا ڈکشنری کا حوالہ بھی دیا۔جسٹس نذر اکبر نے یہ بھی لکھا کہ پاک فوج کا ہر سپاہی آئین پاکستان کی پاسداری کا پابند ہے، آئین توڑنے والے جنرل کا ساتھ دینے والی ہائی کمان آئین کے تحفظ میں ناکام رہی، جنرل مشرف فضاء میں تھے، ان کے ساتھیوں نے غیر آئینی اقدام اٹھا لیا۔

ادھر سابق صدر و آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کیخلاف خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلے کے بعد ترجمان پاک فوج نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کیخلاف سنایا جانے والا فیصلہ خاص طور پر اس میں استعمال ہونے والے الفاظ انسانیت، مذہب، تہذیب اور اقدار سے بالاتر ہیں۔انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان ملک کے دفاع کے ساتھ ساتھ ادارے کے وقار کا دفاع کرنا بھی جانتی ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ افواج پاکستان ایک منظم ادارہ ہے، ہم ملکی سلامتی کو قائم رکھنے اور اس کے دفاع کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کے حلف بردار ہیں اور ایسا ہم نے گزشتہ 20 برس میں عملی طور پر کر کے دکھایا ہے کہ وہ کام جو دنیا کا کوئی ملک کوئی فوج نہیں کرسکی وہ پاکستان، پاک فوج نے اپنے عوام کی سپورٹ کے ساتھ مکمل کیا۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں کئی پریس کانفرنسز میں جنگ کی نوعیت پر بات کی کہ ہم روایتی جنگ سے نیم روایتی جنگ اور پھر آج ہائبرڈ وار کا سامنا کررہے ہیں۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہمیں جنگ کی اس بدلتی ہوئی نوعیت کا بھرپور احساس ہے، اس میں دشمن، اس کے سہولت کار، آلہ کار، ان کا کیا ڈیزائن ہوسکتا ہے، وہ کیا چاہتے ہیں ان سب کی بھی ہمیں سمجھ ہے۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ’جہاں دشمن ہمیں داخلی طور پر کمزور کرتے رہے، اب داخلی طور پر کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ بیرونی خطرات ہیں ان کی طرف سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں، آپ نے دیکھا ہوگا کہ کل بھارتی آرمی چیف کا کیا بیان آیا اور لائن آف کنٹرول پر ان کی کیا کوششیں ہیں‘۔

اپنا تبصرہ لکھیں