ذیا بیطس اور جگر کی بیماری میں مبتلا لڑکی نے کورونا وائرس کو شکست دے دی، یہ کیسے کیا؟ اپنی کہانی سب کو بتادی

ذیا بیطس اور جگر کی بیماری میں مبتلا لڑکی نے کورونا وائرس کو شکست دے دی، یہ کیسے کیا؟ اپنی کہانی سب کو بتادی

ماہرین بتا چکے ہیں کہ کورونا وائرس ذیابیطس، گردوں، پھیپھڑوں ، جگر اور دل کی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے لیکن برطانیہ میں ایک ایسی لڑکی نے کورونا وائرس کے خلاف جنگ جیت لی ہے جو نہ صرف ذیابیطس کی مریض تھی بلکہ جگر اور پھیپھڑوں کے عارضے میں بھی مبتلا تھی۔ میل آن لائن کے مطابق یہ 26سالہ لڑکی سارا ہال پیشے کے اعتبار سے سکول ٹیچر ہے۔ اسے پہلی قسم کی ذیابیطس بھی ہے اور ’اے 1اے ٹی‘ نامی عارضہ بھی، جو اس کے پھیپھڑوں اور جگر کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اسے کورونا وائرس بھی لاحق ہو گیا لیکن اس باہمت لڑکی نے وائرس کے خلاف لڑائی میں حوصلے بلند رکھے اور بالآخر اسے شکست دے ڈالی۔

سارا نے بتایا ہے کہ مارچ کے آغاز میں اس کی طبیعت خراب ہوئی۔ اسے شدید تھکاوٹ رہنے لگی اور سردی لگنے کی علامات ظاہر ہوئیں۔ اگلے دن اسے کھانسی بھی ہونے لگی جس پر سکول کی طرف سے اسے 14دن کے لیے قرنطینہ میں رہنے کی ہدایت کر دی گئی۔ سارا نے گھر پہنچ کر 111پر برطانوی محکمہ صحت کو کال کی، جس پر اسے ڈاکٹر کی طرف سے بتایا گیا کہ غالب امکان ہے کہ اسے کورونا وائرس لاحق ہو گیا ہے۔

سارا نے بتایا کہ ”مجھے سانس میں تکلیف ہونے لگی اور سر ہمہ وقت چکرانے لگا اور ایسا لگتا تھا کہ میں ابھی بے ہوش ہو جاﺅں گی تاہم میں نے خود کو پرسکون رکھا، پانی اور جوس خوب پیتی رہی اور ذہن کو کورونا وائرس کے خیال سے دور رکھا۔ دو دن بعدمجھے ایسے لگا جیسے میری حالت سنبھل رہی ہے۔ مجھے سانس لینے میں جو تکلیف ہوتی تھی وہ کم ہونی شروع ہو گئی اور بخار بھی کم ہو گیا۔تاہم اسی شام کو ایک بار پھر میری حالت بگڑ گئی اور پہلے سے زیادہ تشویشناک ہو گئی۔“

سارا نے کہا کہ ”میرا پورا جسم پسینے سے شرابور رہنے لگا، بار بار قے آنے لگی، شدید کھانسی اور سانس میں تکلیف ہو گئی اور میں ہوش کھونے لگی۔ اتنی زیادہ طبیعت خراب ہونے کے باوجود میں گھر سے ہی کام کر رہی تھی اور بچوں کے لیے اسباق پلان کرکے بھیج رہی تھی۔ میری حالت کی وجہ سے مجھے ایک سبق تیار کرنے میں 10سے زائد گھنٹے لگ رہے تھے۔ حالت زیادہ بگڑنے پر میں نے ایک بار پھر محکمہ صحت کو کال کی جہاں سے مجھے بتایا گیا کہ مجھے 9گھنٹے تک ایمبولینس کا انتظار کرنا ہو گا۔ 9گھنٹے گزرنے پر بھی جب ایمبولینس نہ آئی تو میں نے ایک بار پھر کال کی اور فون آپریٹر مجھے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرنے لگا کہ میں ایمبولینس کینسل کر دوں۔“

رپورٹ کے مطابق مزید 6گھنٹے انتظار کے بعد سارا کو اس کا بوائے فرینڈ اپنی کار میں رائل فری ہاسپٹل لے کر چلا گیا، جہاں اس کا ٹیسٹ ہوا اور اس میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو گئی۔ ڈاکٹروں نے اسے فلوئڈز دے کر اس کی ڈی ہائیڈریشن کچھ کم کی اور اسے واپس گھر بھیج دیا۔ علامات ظاہر ہونے کے ایک ہفتے بعد ان کی شدت میں کمی آنی شروع ہو گئی اور اب اس کی حالت بہت بہتر ہو چکی ہے۔ یوں سارا نے اپنی پہلی امراض کے ہوتے ہوئے اس موذی وباءکو شکست دے دی ہے۔ اس ہفتے کے دوران سارا کی 26ویں سالگرہ بھی آئی۔ اس کا بوائے فرینڈ کیک لے کر آیا لیکن سارا کو سانس کی اتنی تکلیف تھی کہ وہ پھونک مار کر کیک پر لگی موم بتی بھی نہ بجھا سکی تھی۔

اپنا تبصرہ لکھیں