روشنی کی کرن

از

عابدہ رحمانی

اٹھارہ برس کی ہو جانے کے بعد زینا گویا مکمل طور پر خودمختار ہو چکی تھی ۔ پابندی تو پہلے بھی کوئی نہیں تھی لیکن اب اسے اپنے ملک میں خود مختاری کا قانونی تحفظ حاصل ہوچکا تھا ۔ ہائی اسکول گریجویشن اوراٹھارویں سالگرہ کی پارٹی وہ دھوم دھام سے منا چکی تھی۔اسنے اپنے والدین سے ملکر پارٹی کا دلچسپ پروگرام ترتیب دیا تھا اسکی امی یوں بھی پارٹیوں کی دلدادہ تھی ۔ دوستوں میں مسلمان بس دو ہی لڑکیاں تھیں صبا اور سارہ جو کھانا کھا کر اور کیک کاٹنے کے بعد رخصت ہو گئیں ۔ اسکے بعد تو جو ناچ ،گاناشروع ہوا ، سارے دوست ،لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے میں خلط ملط ہو گئے ۔ خوب خوش رہو اور زندگی سے خوب لطف اٹھاؤ۔ اسکے والدین نے اسے بچپن سے یہی سمجھایا تھا۔اور پھر اسکے ماں باپ نے ہوٹل میں دو کمرے بھی بک کروا دئے تھے جہاں وہ سب رہنے گئے اور ہر طرح کی پابندی سے آزاد ہوگئے ۔ تصویریں ، سیلفیاں فیس بک ، واٹس ایپ ، انسٹا گرام اور سنیپ چاٹ کی زینت بن گئیں ۔ نہ ڈر نہ خوف نہ ہی کوئی شرم نہ لحاظ ، والدین نے ہر طرح کی پشت پناہی کر رکھی تھی اور زندگی میں ہر طرح سے لطف اندوز ہونے کی مکمل اجازت تھی۔ لباس بھی مختصر سے مختصر پہننا ،”کیا وہ ایک امریکن لڑکی نہیں ہے اسمیں کیا کمی ہے کہ وہ اسطرح کا لباس نہ پہن سکے، جسطرح اسکی ساری سفید فام اور سیاہ فام امریکن دوست پہنتی ہیں ”
اسکو اپنی کلاس کی حجابی اور دیسی لڑکیوں سے سخت چڑ تھی ۔ “عجیب لڑکیاں تھیں انکے اوپر ایک خول چڑھا ہوا تھا یا چڑھا دیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی حد بندیاں کی ہوئی تھیں ” وہ ان سے ہیلو ہائے سے زیادہ تعلق نہیں رکھتی تھی۔۔
اسکے والدین دونوں خوب کماتے تھے ، زینا کو ہر قسم کی آزادی ، آرام و آسائش میسر تھا ۔ سالگرہ پر اسے نئے ماڈل کی ذاتی گاڑی ملی ، آئی فون کا جدید ترین فون، میسیز macys سے اسنے آنلائن ڈھونڈھ کر ایک چمکدار گلابی ڈریس پسندکیاتھااور ساتھ میں ہیرے کا ہلکا سیٹ اور بریسلٹ ۔ اسنے فون آٹھایا اپنی سیلفی بنائی مختصر بغیر آستین کا سکرٹ ، کھلا گلا ۔ اسے اپنی کلاس فیلو عائشہ کا خیال آیا ۔
” اللہ کی بندی اس گرمی میں بھی پورے کپڑے پہنتی ہے ۔ ہاں لیکن وہ باقی صبا ، سحر سب ہی اسی قسم کی ہیں ۔ سب سکول پورے کپڑے پہن کر آتی ہیں ، حالانکہ حجابی نہیں ہیں ” ایک مرتبہ اسنے پوچھ ہی لیا تو صبا بولی ” ہمیں پبلک میں جسم دکھانے کی اجازت نہیں ہے ” ” اجازت ، اجازت کس کی اجازت ، ہماری مرضی ہم جسطرح سے رہیں ۔ ہم اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں ؟ ” وہ منہ ہی منہ میں بڑ بڑائی۔

صبا کے بے حد اصرار پر اسکے گھر اسکی سالگرہ اور گریجویشن پارٹی میں گئی ۔ عجیب بورنگ سا ماحول تھا ، صرف لڑکیاں اور خواتین تھیں ، اسکے بھائی انتظامات کر رہے تھے لیکن خواتین سے لاتعلق تھے۔ ایک حجابی لڑکی نے
تلاوت اور ترجمہ کیا ۔ قرآن کی آیات اسکے کانوں میں رس گھولنے لگی ۔اسکے دل و دماغ کو اس آواز سے بے حد سکون محسوس ہو رہا تھا ۔زینا نے دوسری لڑکیوں کی دیکھا دیکھی اپنے گلے میں لپٹا ہوا سکارف کھول کر سر ڈھک دیا ۔ترجمہ اسکی سمجھ میں آرہا تھا ۔ اور وہ قرأن کی آیات پر غور کرنے لگی۔۔۔۔سورہ فاتحہ کی تلاوت اور ترجمہ ،اسے یہ بھولے بسرے الفاظ کافی مانوس لگے۔۔۔۔،
جب وہ بھائی بہن چھوٹے تھے تو ایک قاری صاحب انکو قرآن پڑھا تے تھے ،اسنے چند چھوٹی سورتیں بھی یاد کرلیں اسکی امی روز اسے سبق یاد کراتیں اور پھر سنتی ۔ ایک عام امریکی مسلمان گھرانہ تھا ،پھر اسے یاد آیا کہ اسکی امی بڑا سا دوپٹہ اوڑھ کر نماز بھی پڑھتی تھی اور ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگتیں ۔ اتوار کو وہ لوگ باقاعدگی سے اسلامک سکول میں جاتے تھے۔ پھر اچانک کیا ہوا کہ قاری صاحب نے آنا چھوڑ دیا ، دادی کے پوچھنے پر مما نے کہا” وہ حج کرنے گئےہیں ” لیکن پھر وہ پلٹ کر کبھی واپس نہیں آئے،اسلامک سکول جانا بھی بند ہو گیا ،مما نے جا نمازیں اور دوپٹّے لپیٹ کر اوپر کہیں الماری میں رکھ دئے اسکے ابا نے جمعے کی نماز میں جانا چھوڑ دیا۔ اب انکی دوستیاں بیشتر غیر مسلم لو گوں سے ہونے لگیں۔ اسکے والدین کی گفتگو اب زیادہ تر یہ ہوتی ” ہم اچھے انسان ہیں کسی کو تکلیف نہیں دیتے ہر زبان ہر مذہب اور نسل کے لوگ برابر ہیں ،ہم سب سے محبت کرتے ہیں ۔
بچپن سے ہی پالتو جانوروں کا شوق تھا پرندے ، چوہے اور خر گوش پالے اسکے خر گوش کا نام سنو بال تھا برف کی طرح سفید روئی کا گولہ ، سرخ آنکھیں لیکن وہ جلد ہی انسے اکتا گئی ، اسکو اب ایک ہی دھن تھی اور وہ کتا پالنے کی، ،جب بھی وہ دوسروں کے کتے دیکھتی گھر آکر ایک ہی ضد کرتی ،” مجھے کتا چاہئے۔مجھے بس کتا چاہئے۔”
اور نویں سالگرہ پر اسے ایک مہنگا نسلی کتا مل گیا۔ اس کیلئے پورے انتظامات کئے گئے ۔ اس کی دیکھ بھال پر اسنے خوب ٹی وی پروگرام دیکھے بلکہ کتوں کے ایک رفاعی ادارے میں جز وقتی رضاکارانہ کام کرنے لگی۔
دادا دادی پہلے تو باقاعدگی سے سال میں تین چار مہینے آکر انکے پاس گزارتے تھے ، بچوں کے خوب لاڈ ہو جاتے ۔ دادی باورچی خانہ سنبھا ل لیتیں اور مزے مزے کے کھانے بناتیں ۔
دادا ، دادی بھی نمازیں پڑھتے تھے وہ اسوقت چھوٹی سی تھی دوپٹہ اوڑھ کر دادی کے ساتھ سجدوں پر سجدے کرتی اور دادی چمٹا چمٹا کر نہال ہوتی جاتیں۔ آج اور اسوقت اسکو یہ بھولی بسری باتیں ایک دم سے یاد آنے لگیں ۔
دادا کا انتقال ہو گیا اور دادی پھر جانے غائب ہی ہوگئیں ۔ اسنے ایک روز ڈیڈ کو سنا،” اماں کہتی ہیں تم نے اب کتا بھی پال لیا ،ناپاکی اور پلیدی کو گھر کے اندر لے آئے ہو اور پھر تم لوگوں کا طور طریقہ میری برداشت سے باہر ہے “وہ جیک کی گردن سہلاتے ہوئے مما سے کہنے لگے ۔۔
ہاں یہ ضرور تھا کہ وہ عید کا خوب اہتمام کرتے سب کے سب پاکستانی کپڑے پہنتے، زینا اور اسکی امی خوب زرق برق ملبوسات پہنتیں سب مسجد جاتے عید کی نماز پڑھتے اور سب سے عید ملتے لیکن اب چند سال سے یہ بھی ختم ہو گیا تھا ۔۔۔
اسکو خاموش اور گہری سوچ میں دیکھ کر صبا نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ چونک پڑی ،” کیا بور ہو رہی ہو؟”
” نہیں نہیں سب کچھ بہت اچھا ہے ، بہت ہی اچھا” ۔
” زینا اب ہم گیمز کھیلینگے، سوئمنگ اور پھر ڈانس کرینگے ۔مما نے لڑکوں کو باہر بھیج دیا ہے ”
زینا اسے حیرت سے دیکھنے لگی ۔ آج اسنے کافی مناسب لباس پہنا تھا ساتھ میں مناسب کاسٹیوم لے آئی تھی کیونکہ صبا نے پہلے ہی پورا پروگرام بتایا ہوا تھا۔
—————–
تمام تر آزادی کےباوجود زینا کو صبا سے دوستی پسند تھی ۔
دونوں کے ہائی سکول میں بڑے اچھے گریڈز آئے اور اتفاق سے ایک ہی یونیورسٹی میں دونوں کا داخلہ ہوا۔ دونوں کے کورسز بھی ملتے جلتے تھے ۔ جب ہاسٹل ( ڈورم ) میں رہنے کی بات ہوئی تو صبا نے زینا کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا ، زینا کی آزاد خیالی کے باوجود وہ صبا کے والدین کو پسند تھی اور اس سے بہت شفقت سے پیش آتے۔ کیونکہ وہ ایک با اخلاق لڑکی تھی۔
صبا فجر کا آلارم بجتے ہی اٹھ جاتی ، نماز پڑھ کر ایک دو صفحے تلاوت کرتی اور پھر کلاس میں جانے کی تیاری کرتی
واپسی پر باقی نمازیں ادا کرتی ۔ پھر یونیورسٹی کے مسلم ایسوسی ایشن نے انسے ممبر شپ لینے کے لئے کہا ۔ صبا نے تو فورا لے لی لیکن زینا نے کہا،” میں سوچ کر بتاؤنگی”۔
زینا خاموشی سےصبا کا جائزہ لیتی رہی اسے اسکا یہ طور طریقہ اچھا لگنے لگا ۔
ایک شام جب زینا جیف کے ساتھ تیار ہو کر باہر جانے لگی تو صبا نے ٹوکا۔ ،” جلدی واپس آنا ” اور پھر آٹھ بجتے ہی اسکے فون پر فون آنے لگے کہ زینا کو واپس آتے ہی بنی۔
” دیکھو ڈیر ہم مسلمان لڑکیوں کو غیر لڑکوں کے ساتھ اسطرح اکیلے نہیں گھومنا چاہئے۔ کالج کی حد تک بات چیت کافی ہے ۔”
زینا کو بہت عجیب لگا،” اسکے والدین تو اسکی دوستیاں رکھنے پر خوش ہوتے تھے۔ پھر یہ میری ہم عمر ،میری جیسی لڑکی اور اسقدر محتاط اور بااصول ہے ۔یہ کس مٹی کی بنی ہے؟۔” زینا نے جیسے خودہی سے سوال کیا۔لیکن وہ خاموش رہی اسکو صبا کا خیال رکھنا اور متفکر ہونا کچھ اچھا لگنے لگا۔
صبا اسکو اکثر اپنے ساتھ مسلم ایسوسی ایشن کے پروگرام میں لے جاتی ۔ زینا کے لئے شروع شروع میں بہت کچھ ایک انکشاف تھا جیسے وہ اپنے آپکو دریافت کر رہی ہو۔
” صبا کی طرح بننا بہت مشکل ہے ،بہت مشکل۔ لیکن مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں اسکی طرح بنوں ۔؟” اسکے اندر جیسے ایک جنگ سی چھڑگئی تھی۔۔۔۔۔
انکے پہلے سیمسٹر کے امتحانات ہو رہے تھے ۔ فجر کا آلارم بجنے سے پہلے ہی صبا اٹھ چکی تھی اور غسل خانے میں تھی۔ وہ نکلی تو زینا نے کہا ” صبا مجھے بتاؤ ، تم وضو کیسے کرتی ہو۔ میں تمہارے ساتھ نماز پڑھونگی” صبا کو پہلے تو یقین نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے اور پھر فرط مسرت سے اسے گلے لگا کر بہت پیار کیا ۔ پورا وضو کرنے کے بعد صبا نے جانماز آڑا بچھایا ، زینا کو اپنا دوپٹہ اوڑھایا اور اونچی آواز میں نماز پڑھنے لگی زینا اسکے پیچھے دہراتی رہی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد دونوں نے خوب دعائیں مانگیں۔ صبا نے زینا کی ثابت قدمی کے لئے دعائیں کیں ۔ دونوں کی آنکھ میں خوشی اور تشکر کے آنسو تھے ۔
زینا کو یوں محسوس ہوا کہ وہ ایک خواب غفلت سے بیدار ہوگئی ہے۔ ” میں اب تمہارے ساتھ باقاعدہ نماز پڑھونگی ”
دو روز کے بعد مسلم ایسوسی ایشن کی میٹنگ تھی زینا بہت شوق سے صبا کے ساتھ گئی۔
” برادر میں ممبر بننا چاہتی ہوں ” زینا نے ایسوسی ایشن کے صدر حامد ریا ض سے کہا۔
” ویلکم ویلکم خوش آمدید ، ضرور بے حد خوشی کی بات ہے ” حامد نے جواب دیا۔ اور پھر اسنے اعلان کیا ” بہن زینا ہماری نئی ممبر ہونگی ۔ ہمیں امید ہے کہ وہ ایسوسی ایشن کے لئے بہت مبارک اور کار آمد ہونگی” اسنے ممبر شپ فارم بھرا۔ تو خوب تالیاں بجیں تمام لڑکیوں نے باری باری اسے گلے لگا کر پیار کیا۔ اسنے پورا ڈریس اور ہلکی جیکٹ پہن رکھی تھی۔ سر پر ریشمی رومال باندھا تھا ۔ اسقدر خوبصورت لگ رہی تھی کاش اسکی دادی اسوقت موجود ہوتی۔۔
” کیا سسٹر زینا آپ کچھ کہنا چاہینگی؟” برادر حامد بولے
” بسم اللہ الرحمان الرحیم ۔ آپ سبکو السلام علیکم ۔ میں یہ ممبر شپ لیکر بہت خوش ہوں اور اللہ کاشکر ادا کرتی ہوں کہ اسنے صبا کو میرا روم میٹ بنایا جو میرے لئے روشنی کی کرن ثابت ہوئی جزاک اللہ خیر ا صبا ڈیر ، تھینک یو ویری مچ۔ اسنے صبا کو گلے لگایا ۔۔۔۔ دونوں کی آنکھیں خوشی اور احسان مندی کے آنسووں سے لبریز تھیں ۔

اپنا تبصرہ لکھیں