دانش میٹرک کاطالب علم تھا۔ بڑا ہونہار بچہ تھا دردمنددل رکھنے وال۔ کسی کو مصیبت میں دیکھتا تو فوراََ اس کی مدد کو پہنچ جاتا اور اس کی مدد کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا۔ اس سے کسی کوکوئی شکایت نہیں تھی۔
سمعیہ غفار:
دانش میٹرک کاطالب علم تھا۔ بڑا ہونہار بچہ تھا دردمنددل رکھنے وال۔ کسی کو مصیبت میں دیکھتا تو فوراََ اس کی مدد کو پہنچ جاتا اور اس کی مدد کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا۔ اس سے کسی کوکوئی شکایت نہیں تھی۔
ایک روز دانش اسکول سے گھر جارہا تھا تو اسے کسی کی آواز سنائی دی۔ اسے ایسا لگاجیسے کوئی بھکاری صدا دے رہاہو۔ دانش اِدھر اُدھر دیکھا تو اسے درخت کے سائے میں ایک بوڑھا شخص نظر آیا، جو سر جھکائے دونوں ہاتھ مٹی میں ڈالے مسلسل صدا لگائے جارہا تھا: درخت لگاؤ ثواب کماؤ، درخت لگاؤ ثواب کماؤ۔
دانش اس بوڑھے کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہ پودے لگارہاتھا۔ دانش نے قریب پہنچ کر اسلام کیا اور اجازت لے کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔
بابا! آپ کا نام کیا ہے؟ دانش نے پوچھا۔
عرفان! بابا نے کہا۔
بابا! آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں اور اس طرح صدائیں کیوں لگارہے ہیں۔
دانش نے سوال کیا۔
دانش کی بات سن کربابا کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ دانش نے انھیں تسلی دی تو وہ آنسو صاد کرتے ہوئے بولے: ارے بیٹھا یہ بہت لمبی کہانی ہے، تم جاؤ تمھیں دیر ہوجائے گی۔
نہیں بابا! آپ بتائیں مجھے دیر نہیں ہوگی۔
بابا نے کہنا شروع کیا: یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں انٹرپاس کرکے ایک لکڑی کے کارخانے میں ملازم ہوا۔ اللہ کے فضل سے میں ایک ذہین نوجوان تھا۔ تمام کام جلدی سیکھ گیا اور مہارت بھی حاصل کرلی۔میں اپنے کام میں اتنا ماہر ہوگیا تھا کہ مجھے کسی کی رہنمائی کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
میری ذہانت اور جلد سیکھنے کی صلاحیت نے میرے اندر غرور پیدا کردیا۔ میں نے اپنی اس تبدیلی کو محسوس بھی کیا، لیکن نظر انداز کردیا۔ ایک روز میں کام پر دیر سے پہنچا تو کارخانے کے مالک نے مجھے بہت ڈانٹا اور سب لوگوں کے سامنے میری بے عزتی کی۔
اصل میں وہ پہلے سے ہی کسی بات پر غصے میں بھرے بیٹھے تھے مجھے دیکھتے ہی انہوں نے سارا غصہ مجھ پر اتار دیا۔ میں نے ہمیشہ اپنا کام ایمان داری سے کیا تھا اور وقت کابھی ہمیشہ خیال رکھا تھا، اس لئے مجھے اپنے مالک کی بات بہت بری لگی اور میں نے غصے میں آکر ملازمت چھوڑدی۔
گھر آکر میں نے اپنی ماں کا سارا قصہ سنایا، ماں نے مجھے بہت سمجھایا کہ بیٹا وہ تمھارے مالک ہیں اور عمر میں بھی تم سے بڑے ہیں، اگر انھوں نے تمھیں کچھ کہہ بھی دیا تو اس میں برائی کیا ہے۔ بڑے جو کہتے ہیں اس میں بچوں کی بھلائی ہی ہوتی ہے۔
آج کل کے نوجوانوں میں تو برداشت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ تم کل کارخانے جاکر اپنا کام دوبارہ شروع کرنا۔
میں نے ماں کی بات سنی ان سنی کردی اور ضد میں آکر فیصلہ کیا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے میں اس سیٹھ کے ہاتھوں اپنی مزید بے عزتی نہیں کرواؤں گا اور وہاں کبھی کام کرنے نہیں جاؤں گا۔
مجھے سارا کام آتا ہے، اب میں اپنا کام شروع کروں گا اور اس سیٹھ سے بھی بڑا آدمی بن کردکھاؤں گا۔ آخر یہ سیٹھ اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے۔ بس اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرنا شروع کیا اور کچھ رقم قرض لے کر کچھ ضروری مشینیں خرید لیں۔
اب مجھے لکڑی کی ضرورت محسوس ہوئی، لہٰذا میں اپنے آس پاس کے علاقے کے درخت کاٹنے شروع کردئے تاکہ اپنا کام شروع کرسکوں۔
میری ماں نے مجھے درخت کاٹنے سے بہت منع کیا کہ بیٹا درخت لگانا اور ان کی حفاظت کرنا بہت ثواب کا کام ہے۔
درخت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ درخت ہمارے ملک کوخوب صورت اور ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں۔ درخت ہمیں سبزیاں، پھل، جڑی بوٹیاں اور سیایا فراہم کرتے ہیں۔ درختوں کو دیکھ کرہماری آنکھوں کو ٹھنڈک اور سکون ملتا ہے۔ ہمارے بینائی تیز ہوتی ہے۔
درخت ہمیں آکسیجن دیتے ہیں جو ہماری زندگی کے لئے بہت ضرور ہے۔ اس کے علاوہ درخت ہمارے ماحول کو آلودگی سے بھی بچاتے ہیں۔
غرض میری ماں نے مجھے درختوں کے بہت فائدے بتائے اور مجھے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ میں درخت کاٹنے جیسے گھناؤنے جرم سے باز رہوں۔
لیکن میں اپنی ضد پر اڑا رہا اور اپنی ماں کی نصیحت کو نظر انداز کردیا۔
ایک روز میں درخت کاٹنے میں مصروف تھا کہ مجھے کسی کے کراہنے کی آواز سنائی دی میں نے ادھر اُدھر دیکھا تو کوئی نظر نہ آیا، آواز بڑھتے بڑھتے سسکیوں میں تبدیل ہوگئی، لیکن میں نے آواز کی طرف توجہ نہ دی اور اپنے کام میں مصروف رہا۔
اتنے میں ایک ننھی چڑیا اڑتی ہوئی اائی اور میرے سامنے پھڑپھڑانے لگی، شاید وہ کچھ کہنا چاہتی تھی، لیکن میں اس کی بات نہ سمجھ سکا۔
گھرآکر میں نے ماں سے اس بات کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ سسکیاں ان درختوں کی تھیں جنھیں تم کاٹ رہے تھے اور وہ فریاد کررہے تھے کہ ہمیں مت مارو ہمیں جینے دو۔
اور وہ ننھی چڑیا اپنے گھر کی بربادی پر تڑپ رہی تھی اور تم سے التجائیں کر رہی تھی کہ خدا کے لئے مجھے بے گھر مت کرو۔
میں نے ماں کی بات کوہنس کرٹال دیا کہ درخت بھلا کیسے روسکتے ہیں وہ توبول بھی نہیں سکتے۔ ماں نے کہا بیٹا درخت جان دار ہیں وہ سب کچھ محسوس کرسکتے ہیں۔
وقت گرتا گیا میں نے خوب دل لگا کر محنت کی، اپنا کارخانہ لگالیا، درخت کی ریل پیل ہوگئی اور آخر کار میں سیٹھ سے بھی زیادہ دولت مند ہوگیا۔ اس دوران میری عمر بھی کافی زیادہ ہوگئی اور میری ماں بھی اللہ کو پیاری ہوگئی میں اکیلا رہ گیا۔
مرتے دم تک ماں یہی کوشش کرنا اور میں ہمیشہ یہی سوچتا کہ بھلا درخت کیسے بددعا دے سکتے ہیں۔
ایک روز میں اپنے کارخانے میں کام کررہا کہ اچانک کارخانے میں آگ لگ گئی۔ دھوئیں سے میرا دم گھٹنے لگا اور میں بے ہوش گیا جب ہوش میں آیا تو میں اسپتال میں تھا مجھے سانس کی بیماری لاحق ہوگئی اور میرا سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا۔
اس وقت مجھے اپنی ماں کی بہت یاد آرہی تھی، لیکن افسوس اس بات کا تھا کہ وہ اس مشکل گھڑی میں میرے ساتھ نہیں تھی۔
ایک رات ماں میرے خواب میں آئی اور مجھے پیار کرکے کہنے لگی : دیکھو بیٹا تم نے میری بات نہیں مانی اور درختوں اور ننھی چڑیا کی بددعا تمھیں لگ گئی۔
دیکھو بیٹا! پرندے، جانور اور درخت سب جان دار ہیں یہ کچھ بولتے نہیں، لیکن محسوس سب کرتے ہیں۔ ان کی اندر بھی زندگی ہوتی ہے۔ اتنا کہہ کر وہ چلی گئیں۔
جب میں صبح بیدار ہوا تو میری زندگی ہی بدل چکی تھی۔ مجھے اپنی ماں کی تمام باتیں اچھی طرح سمجھ میں آچکی تھیں۔
میں نے اٹھ کر نماز ادا کی، اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور فیصلہ کیا کہ میں اب کبھی درخت نہیں کاٹوں گا، بلکہ مزید پودے اور درخت لگاؤں گا، تاکہ میرے گناہوں کی تلافی ہوسکے اورمرنے کے بعد مجھے سکون مل سکے، اسی لیے میں اور لوگوں کو بھی یہ نصیحت کرتا ہوں کہ درخت لگاؤ ثواب کماؤ، درخت لگاؤ ثواب کماؤ۔
بابا اپنی داستان سناتے سناتے رو پڑے اور دانش سے بولے بیٹا‘ درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے تم مجھ سے وعدہ کرو تم گھر جا کر ایک پودا، ضرور لگاؤ گے اور ہمیشہ اس کا خیال رکھو گے اور اس کی بددعا سے بھی بچو گے۔
دانش نے بابا سے وعدہ کیا اور گھر پہنچ کر اس نے گھر کے باہر ایک ننھا پودا لگایا اور اس پودے کے ساتھ ایک چھوٹا سابورڈ بھی آویزاں کردیا، جس پر لکھا تھا: درخت اور پودے ہمارے بیش بہا سرمایہ ہیں‘ آؤ آگے بڑھو اور شجرکاری مہم میں اپنا حصہ ڈالو۔
آؤ زیادہ سے زیادہ درخت لگاؤ ثواب کماؤ۔