مویشی منڈی میں نوجوان پاکستانی لڑکی بھی جانور فروخت کرنے آگئی

مویشی منڈی میں نوجوان پاکستانی لڑکی بھی جانور فروخت کرنے آگئی

سپر ہائی وے مویشی منڈی میں 21 سالہ لڑکی بھی جانور فروخت کرنے آگئی جس کے کمیپ میں 7 لاکھ روپے تک کے جانور موجود ہیں، لڑکی جانوروں کی دیکھ بھال کے ساتھ خریداروں سے قیمتیں بھی طے کرتی ہے۔سپر ہائی وے مویشی منڈی میں کراچی کی ایک باہمت 21 سالہ نوجوان لڑکی بھی جانوروں کی فروخت کے لیے میدان میں آگئی، عائشہ غنی جہاں جانوروں کی فروخت کے لئے مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے وہیں جانوروں کی دیکھ بھال بھی کر رہی ہے، عائشہ غنی اپنے جانور مویشی منڈی سمیت آن لائن بھی فروخت کر رہی ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی گلشن اقبال کی رہائشی 21 سالہ عائشہ غنی نے جانوروں کی فروخت کے لیے مویشی منڈی میں کیمپ لگالیا، کیمپ میں 36 جانور موجود ہیں جن میں دو اور چار دانت کی گائے، بیل اور بچھڑے شامل ہیں۔ ان کی قیمتیں 1 لاکھ 30 ہزار روپے سے لے کر 7 لاکھ روپے تک ہیں۔

عائشہ روزانہ صبح منڈی آکر اپنے جانوروں کی دیکھ بھال خود کرتی ہے، انہیں نہلانا، چہل قدمی کروانا، سجانا اور انہیں کھانا پلانا بھی خود کرتی ہے۔ منڈی آنے والے خریداروں کو جانوروں کی خصوصیات بتانے کے ساتھ ساتھ ان کی فروخت کے حوالے سے قیمتیں بھی طے کرلیتی ہے۔

عائشہ اپنے جانور مویشی منڈی میں فروخت کرنے کے علاوہ آن لائن بھی فروخت کر رہی ہے۔ عائشہ غنی کا ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہماری 10 گائے فروخت ہوچکی ہیں، بڑے جانور ابھی کافی ہیں جو آہستہ آہستہ فروخت ہوجائیں گے، ہمارے پاس 1 لاکھ 30 ہزار روپے سے شروع ہو کر 7 لاکھ روپے تک کے جانور موجود ہیں، اس سال خریدار کم آرہے ہیں جس کی وجہ کام سست روی کا شکار ہے۔

عائشہ کے مطابق ہمارے جانور آن لائن بھی فروخت ہوتے ہیں جہاں میں روزانہ آن لائن آکر جانوروں کی تصاویر بھی اپ لوڈ کرتی ہوں اور ان سے متعلق معلومات بھی پیش کرتی ہوں۔انہوں نے بتایا کہ خریدار کم قیمت میں اچھے جانور کی تلاش میں منڈی آتے ہیں، اس سال مہنگائی میں بہت اضافہ ہوا ہے اسی لیے قیمتیں بھی بہت زیادہ ہوگئی ہیں۔ عائشہ نے بتایا کہ یہ جانور چونکہ گھر کے پلے ہوئے ہیں اس لیے روٹی اور چاول وغیرہ بھی کھاتے ہیں تاہم ان کی بنیادی غذا چارہ ہے، ہر تین گھنٹے بعد یہ کھانا کھاتے ہیں، میں روزانہ منڈی آتی ہوں اور جانوروں کے ساتھ وقت گزارتی ہوں تاہم ان کی دیکھ بھال کے لیے یہاں ورکرز بھی رکھے ہوئے ہیں۔

عائشہ نے کہا کہ اس سال پہلی بار میں یہ کام کر رہی ہوں، میں چاہتی ہوں کہ لڑکیاں بھی اس کام میں آگے آئیں، مشکلات تو بہت آتی ہیں لیکن میں معاشرے میں مقام بنانا چاہتی ہوں، لڑکیوں کو آگے بڑھنے میں بہت سے مسائل پیش آتے ہیں، میں نے پہلا قدم اٹھایا ہے امید ہے مجھے دیکھ کر مزید لڑکیاں اور خواتین بھی آگے آئیں گی۔

اپنا تبصرہ لکھیں