ترک گیمز آف تھرونز کہلانے والے ڈرامے ارطغرل غازی نے نوجوان کشمیریوں میں آزادی کی نئی روح پھونک دی۔ متعدد والدین اپنے بچوں کا نام ارطغرل رکھنے لگے۔
دنیا نیوز کی رپورٹ کے مطابق ڈرامہ ارطغرل غازی ڈرامے کی کہانی 13ویں صدی میں ’سلطنت عثمانیہ‘ کے قیام سے قبل کی ہے اور ڈرامے کی مرکزی کہانی ’ارطغرل‘ نامی بہادر مسلمان سپہ سالار کے گرد گھومتی ہے جنہیں ’ارطغرل غازی‘ بھی کہا جاتا ہے۔
ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح 13ویں صدی میں ترک سپہ سالار ارطغرل نے منگولوں، صلیبیوں اور ظالموں کا بہادری سے مقابلہ کیا اور کس طرح اپنی فتوحات کا سلسلہ برقرار رکھا۔
ڈرامے میں سلطنت عثمانیہ سے قبل کی ارطغرل کی حکمرانی، بہادری اور محبت کو دکھایا گیا ہے، اس ڈرامے کی مجموعی طور 179 قسطیں ہیں۔
شہرہ آفاق ترک ڈرامے ارطغرل غازی کی مقبولیت پاکستان میں مسلسل بڑھ رہی ہے اور اس میں کام کرنے والے اداکاروں کے پاکستانی مداحوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈرامے میں ارطغرل غازی کا کردار 41 سالہ انجین التان دوزیتان نے نبھایا ہے جب کہ انکی بیوی حلیمہ سلطان کا کردار 28 سالہ اسرا بلجک نے ادا کیا ہے۔
دونوں اداکاروں اور خاص طور پر حلیمہ سلطان کی پاکستان میں بے پناہ مقبولیت ہے اور لوگوں نے سوشل میڈیا پر فالو کرنے سمیت ان سے محبت کا اظہار کرنا بھی شروع کیا اور بتایا کہ کس طرح پاکستانی مداح انہیں پسند کرنے لگے ہیں۔ ڈرامہ مداحوں کی جانب سے حلیمہ سلطان یعنی اسرا بیلگیج کے سوشل میڈیا اکائونٹس پر ان کی تعریف میں کمنٹس کیے گئے ہیں اور لوگ ان سے ملنے اور انہیں پاکستان آنے کی دعوت دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
ترک خبر رساں ادارے ’اناطولیہ‘ کے مطابق ڈرامہ ارطغرل غازی نے نوجوان کشمیریوں میں آزادی کی نئی روح پھونک دی ہے۔ اس ڈرامے کو مقبوضہ وادی میں بھارتی جبر کے باوجود دیکھا جا رہا ہے۔
بزنس کے طالب علم 27 سالہ ابو بکر کا ’اناطولیہ ایجنسی‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس ڈرامے نے ہم میں امید پیدا کر دی ہے، ہم پر امید ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہماری مشکلات ختم ہو جائینگی۔
خبر رساں ادارے کے مطابق ابو بکر نے ارطغرل غازی کے پانچ سیزن دیکھ لیے ہیں لیکن وہ اس ڈرامے کو دوبارہ دیکھ رہے ہیں، دوبارہ ڈرامہ دیکھنے کی سب سے بڑی وجہ ایک مضبوط مذہبی پیغام ہے۔ اس پیغام میں کہا گیا ہے کہ فتح ہماری نہیں بلکہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
ترک خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بطور مسلمان میں اس ڈرامے سے بہت زیادہ لگائو رکھتا ہوں، ڈرامے میں کلچرل، سوشل اور سایسی اور مذہبی لگا دکھایا گیا ہے۔
سوشیالوجی کے سکالر میں ریسرچ کرنے والے مانون اختر کا ترک خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ ڈرامہ سیریز کشمیریوں کے مسائل سے ملتی جلتی ہے، ڈرامے میں دکھائے گئے مشکل مسائل بالکل ہماری وادی کی طرح سے ملتے ہیں۔
خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ارطغرل غازی جیسا بہادر شخص اللہ تعالیٰ مقبوضہ کشمیر میں بھی بھیجا گا اور وہ ظلم، ناانصافی کا خاتمہ کرے گا۔
ترک خبر رساں ادارے نے ماہرین سے بات کی تو ان میں سے ایک نور محمد بابا کا کہنا تھا کہ ڈرامے میں دکھائے گئے مناظر کشمیریوں سے ملتے جلتے ہیں۔ اس ڈرامے کے مشہور ہونے کی تین وجوہات ہیں،بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلی وجہ ڈرامہ سیریز کا مواد کشمیریوں سے ملتا جلتا ہے، ثقافتی ہم آہنگی دوسری وجہ جبکہ تیسری وجہ اسلامی اقدار ہے۔
یاد رہے کہ 5 اگست 2019ءکو بھارت نے جابرانہ فیصلہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر دیا تھا جس کے بعد چار ماہ بعد مقبوضہ وادی میں دسمبر 2019ءکو ڈرامہ نشر ہونا شروع ہوا۔ البتہ قابض حکومت نے کشمیریوں کو انٹرنیٹ سے محروم رکھا تاہم اس کے باوجود مقبوضہ وادی کے شہریوں کی بڑی تعداد نے انٹرنیٹ کی ٹو جی سروس میں بھی ڈراموں کو ڈائون لوڈ کر کے دیکھا۔
خبر رساں ادارے کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں یہ اس طرح مشہور ہو گیا ہے کہ مسلمان والدین اپنے بچوں کا نام بھی ارطغرل غازی کے نام سے رکھ رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ سے تعلق رکھنے والے والدین نے اپنے بیٹے کا نام ارطغرل رکھا تھا، یہ نام انہوں نے اپنی 8 سالہ بیٹی کی فرمائش پر رکھا تھا۔
اناطولیہ ایجنسی سے بات کرتے ہوئے بچے کے والد نے کہا کہ میری بیٹی ڈرامہ کی دلدادہ ہے، جب میری اہلیہ امید سے تھی تو میری اہلیہ نازش اکبر نے کہا تھا کہ اگر بیٹا ہوا تو اس کا نام ارطغرل رکھا جائے گا۔
خبر رساں ادارے کے مطابق بچوں کے ڈاکٹر سہیل نائیک کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے دیکھنے کو مل رہا ہے کہ والدین اپنے بچوں کا نام ارطغرل سے رکھ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان جب سے برسر اقتدار آئے وہ مسلمانوں پر ہونے مظالم کے خلاف صدائیں بلند کرتے رہتے ہیں، فلسطین، مقبوضہ کشمیر، افغانستان سمیت جہاں پر بھی مسلمانوں کیخلاف ظلم ہوتا ہے وہ اپنی صدائیں بلند کرتے رہتے ہیں، ایک موقع پر پاکستانی پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مقبوضہ وادی میں ہونے والے مظالم پر آواز بلند کی تھی جس کے بعد بھارتیوں کو مرچیں لگ گئی تھیں۔