جب پکڑا طوطے نے چور
ٹیں ٹیں کر کے مچایا شور
شازیہ عندلیب
قسط نمبر 1
یہ ایک اعلیٰ نسل کا طوطا تھا جسکی ذات راء تھی اس نسل کے طوطے بہت نایاب اور مہنگے ہوتے ہیں۔اکثر شکاری جنگلوں سے یہ طوطے پکڑ کر مہنگے داموں فروخت کر دیتے ہیں۔راء ذات کے طوطے کا آبائی ملک آسٹریلیاہے لیکن ان کے خاندان کے کچھ طوطے ہجرت کر کے پنجاب کے دیہی علاقوں کے جنگلات میں آ بسے۔انہی میں میاں مٹھو بھی شامل تھا۔اسے ایک شکاری جو کہ اکثر دریائے جہلم کے کنارے سے موسم گرماء میں مرغابیوں کو شکار کیا کرتا تھا۔اسے ایک روز شکار کے وقت جنگل سے ایک بے یار و مدد گار طوطے کا بچہ ملاء ابھی اسکے بال و پر بھی نہیں اگے تھے۔وہ ایک پرانے پیپل کے درخت کے نیچے بھوکا پیاسا پڑا تھا۔یہ درخت بہت اونچا تھا اور اسکا گھونسلا درخت کی سب سے اونچی شاخ پر واقع تھا۔اسے واپس اسکے گھونسلے میں رکھنا ناممکن تھا۔اس لیے شکاری یاسر خان جو اپنے دوستوں اعجاز اور ظلمی کے ساتھ شکار پہ گیا تھا اس طوطے کو رحم کھا کر گھر لے آیا۔اگر طوطے کا بچہ جنگل میں پڑا رہتا تو اسے کوئی جنگلی جانور کھا جاتا۔اس جنگل میں بھیڑیے،لومڑیاں اور جنگلی بلیاں کثرت سے پائی جاتی تھیں۔
یاسر خان اکثر ملازمت سے چھٹیوں میں اپنی بہنوں کو ملنے کبھی راولپنڈی اور کبھی فیصل آباد چلا جاتا۔۔وہاں اسکی بہنوں کے بچے اپنے ماموں سے مل کر بہت خوش ہوتے۔وہ اسے دیکھتے ہی اسکی طرف بھاگے آتے۔یاسر اکثر اپنے بھانے بھانجیوں کے لیے تحفے تحائف بھی لے جاتا۔ایک تحفہ وہ ہمیشہ لے جاتا جو کہ سب بہت پسند کرتے تھے۔یہ تحفہ تھا ضلع جہلم کا مشہور کھویا اور پتیسہ۔یہ یہاں کی خاص سوغات تھی۔ضلع جہلم کا کھویا اور پتیسہ پنجاب میں سب سے بہترین سمجھا جاتا تھا۔
یاسر خان نے طوطے کے بچے کی بہت محبت سے دیکھ بھال کی وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ کس نسل کا طوطا ہے۔وہ تو اسے صرف ہمدردی کی وجہ سے پال رہا تھا۔یاسر خان نے اسے ایک خوبصورت اور آرام دہ پنجرے میں رکھا۔جہاں وہ ہر روز صبح شام اسے دانہ پانی اور کچے پھل امرود اور سیپ پیس کر دیتا،کیونکہ وہ ابھی بچہ تھا کوئی چیز کاٹ کر نہیں کھا سکتا تھا۔
چند ہفتوں کے بعد طوطے کے بچے نے بال و پر بھی نکال لیے۔یاسر خان جب ڈیوٹی سے واپس آتا طوطے کا بچہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوتا اور خوشی سے بولنے لگتا۔یہ بہت خوبصورت گہرے سبز رنگ کا طوطا تھا اسکی گردن کے گرد سرخ رنگ کے پر تھے جنہیں دیکھ کرلگتا تھا اسنے ہار پہن رکھا ہے۔یاسر خان کا گھرانہ گرمیوں کی راتوں میں اپنے کچے گھر کی چھت پر سویا کرتے تھے۔گرمیوں کی راتوں میں چھت پر ٹھنڈی ہوا چلتی اور یہ لوگ چاند اور ستاروں کی روشنی میں میٹھی نیند سویا کرتے تھے۔ایک روز یاسر خان کو چور ڈھونڈنے کے لیے بہت دور جانا پڑا جس کی وجہ سے اسے واپسی میں دیر ہو گئی طوطے کے بچے نے اسکا بہت انتظار کیا پھر تھک ہار کے سو گیا۔یاسر کی امی طوطے کا پنجرہ اوپر چھت پہ لے گئی۔انہوں نے طوطے کا نام میاں مٹھو رکھا تھا۔یاسر گھر رات گئے لوٹا تو طوطا سو رہا تھا۔ پھر صبح یاسر نے اسے میاں مٹھو کہ کر بلایا تببھی طوطا سر جھکائے بیٹھا رہا۔یاسر کام پہ چلا گیا۔دو تین دن تک ایسا ہی ہوتا رہا یاسر جب اسے بلاتا وہ سر نیچے کر لیتا۔جب یاسر چلا جاتا وہ خوب ٹیں ٹیں کرتا یاسر کی امی طوطے سے باتیں کرتی رہتی۔
پیارے بچوں۔۔۔یاسر نے سمجھا کہ طوطا جنگل واپس جانا چاہتا ہیوہ اسے چھٹی کے روز جنگل لے گیا۔اور پنجرہ کا دروازہ کھول دیا تاکہ وہ اڑ جائے یکن وہ باہر نکل کر یاسر کے کندھے پہ بیٹھ گیا اور اپنی سرخ چونچ اسکے کندھے سے رگڑنے لگا۔ایکدم کسی نے یاسر کو آواز دی۔یاسر ادھرادھر دیکھنے لگا۔مگر وہاں اس کے آس پاس کوئی نہ تھا۔یاسر بہت حیران ہوا کہ اسے کس نے آواز دی ہے۔تھوڑی دیر بعد پھر آواز آئی یاسر خان۔۔۔یاسر نے فوراً اپنا پستول نکال لیا کہ کوئی جنگل میں چھپا ملزم ہی نہ ہو۔اس نے سوچا پہلے میں طوطے کو اڑا دوں پھر دیکھتا ہوں کون ہے۔اس نے طوطے کو اڑایا اور اسے اپنے اوپر سے یاسر خان آواز آئی تو وہ حیران ہو گیا اور اس نے فوراً پستول اپنی جیب میں ڈال لیا کیونکہ یہ آواز کوئی اور نہیں بلکہ میاں مٹھو دے رہا تھا۔اسے یاسر سے بہت پیار تھا اب وہ واپس گھر نہیں جانا چاہتا تھا۔کیونکہ اب وہ یاسر کو ہی اپنی ماں یا باپ سمجھتا تھا جس نے اسے ماں بن کر پالا تھا۔وہ اب یاسر کی زبان بولتا تھا۔کیونکہ ہر جاندار وہی زبان بولتا ہے جو اسکے والدین بولتے ہیں۔اور یاسر اور اسکی ماں کو وہ اپنے والدین سمجھتا تھا۔دنیا کا ہر پرندے کے اندر قدرت نے ایک خاص آواز کا سپیکر فٹ کیا ہوتا ہے جس کے مطابق وہ آوازیں نکالتا ہے جیسے طوطا ٹیں ٹیں کرتا ہے جبکہ کبوتر غٹر غوں اور کوا کائیں کائیں کرتا ہے۔لیکن طوطا مینا ایسے پرندے ہیں جو انسانوں کی زبان بھی بول لیتے ہیں۔کچھ آسٹریلوی اور ارجنٹائن کے طوطے بہت جلد انسانی زبان سیکھ جاتے ہیں جبکہ مینا طوطوں سے ذیادہ مہارت کے ساتھ سیکھے ہوئے الفاظ استعما ل کرتی ہے۔اس طرح طوطے بھولے ہوتے ہیں جبکہ مینا چالاک ہوتی ہے۔یاسر کو پتہ چل گیا تھا کہ یہ طوطا اپنے گھونسلے میں واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔اسے اس سے محبت ہو گئی تھی اس لیے یاسر اسے گھر واپس لے آیا۔میاں مٹھو کو اسکی ماں واپس دیکھ کر بہت خوش ہوئی وہ اسے ہر روز چوری کھلاتی تھی۔مٹھو اب یاسر کی ماں سے بھی باتیں کیا کرتا تھا۔جب بھی گھر کا دروازہ بجتا وہ کہتا تھا کون ہے،کون ہے۔ماں جی جب تک دروازہ نہ کھول لیتی وہ کون آیا کون آیا ہی کہتا رہتا تھا۔ جاری ہے۔۔۔۔