شہباز رشید بہورو
نشاط دل کی دنیا کو آباد کرنے لگا تو روحانی وجود کے مطالبات کی سنگینیاں مانند قفس مقید کرنے لگیں۔یہ سنگینیاں مادی دنیا کی سختیوں سے عبارت نہیں بلکہ روحانی دنیا کے مسلسل تھپیڑوں کے احساس کا برامد شدہ نتیجہ ہے۔اطمینانِ قلب روح کے سکون پہ منحصر ہے۔اگر انسانی روح بے قرار ہو تو دل میں حقیقی خوشی جگہ نہیں پکڑ پاتی ۔بعض اوقات ہمارا دل وقتی طور خوشی محسوس کرتا ہے لیکن وہ خوشی یا تو کسی نفسانی خواہش کی تسکین یا پھر کسی کیمیائی تعامل کے سبب پیدا ہوتی ہے ۔دونوں صورتوں میں ایک خاص مدت تک اس سے انسان متاثر رہتا ہے اور بالآخر اس خوشی کا اثر ذا ئل ہو جاتا ہے ۔جب تک سکونِ قلب کی جڑیں روحانی وجود میں پیوست نہ ہوں تب تک انسان حقیقی خوشی سے لطف اندوز نہیں ہو پاتا ہے ۔خوشی کو روحانی وجود میں پیوست کرنے کے لئے روحانی ذرائع کا ہی استعمال موئثر ہے جو اسلام کی شکل میں موجود ہے۔لیکن اقوامِ عالم ایک بہت بڑے جرم کا ارتکاب کر رہی ہے کہ وہ اسلام سے دن بدن بعید ہوتے جارہے ہیں ۔ڈپرشن کے علاج کے لئے اگرچہ سائکیٹریسٹ کا مشورہ ضروری ہے لیکن علاج کے طور پر دوائی کے بدلے اسلام ہی موئثر ہے۔جب جسم کے اندر ایک توانا و تندرست روح ہو تو انسان ڈپرشن سے محفوظ رہتا ہے۔روح کمزور برے افعال سے ہوتی ہے اور اچھائیوں سے یہ مضبوط اور طاقتور ہوتی ہے۔اس لئے روح کو قوی کرنے کے لئے مستند صحیح اعمال سر انجام دئے جائیں ۔آج پوری دنیا میں ڈپرشن عام ہو رہا ہے اور دمڈپرشن کے مریض مذہبی اداکاروں کے نصائح پر عمل کرتے ہوئے کوئی کار خیر کر بھی جاتے ہیں لیکن حقیقی روحانی خوشی سے پھر بھی محروم رہ جاتے ہیں ۔اس محرومیت کی سب سے بڑی وجہ وہ ایمان کی نعمت سے سرفراز نہیں ہوتے ۔ایمان کا تعارف ہی دراصل آج کی دنیا کے جملہ مسائل کا حل ہے، جن کی وجہ سے ڈپرشن ایک خطرناک مرض کی صورت میں ان کی گرفت کر چکا ہے ۔ایمان کا صحیح تعارف مسلمان اسلامی طرزِ حیات کے اپنانے سے پیش کر سکتا ہے۔الفاظ میں ایمان کا تعارف اتنا کارگر نہیں جتنا کہ عمل کے ڈھانچے میں موئثر ہے۔
روح کے حوالے سے چند باتیں اور کرتے چلے جائیں وہ یہ کہ برے افعال سے روح مجروح ہوتی ہے اور اس کے مجروح ہونے سے انسان درد بھی محسوس کرتا ہے لیکن اس کی صحیح تشخیص کرنے میں اکثر انسان کوتاہی کر جاتا ہے اور کوتاہی کے سبب انسان کی پوری زندگی داو پر لگ جاتی ہے۔کیو نکہ اس تکلیف کو دور کرنے کے لئے ہم مادی اسباب ہی زیادہ تر استعمال میں لاتے ہیں برعکس اس کے کہ ہم روحانی ذرائع تلاش کرتے ۔دنیا میں مستند ذرائع جس سے انسانی روح کی تمام جملہ مشکلات حل ہو سکتی ہیں وہ اسلامی تعلیمات کی شکل میں موجود ہے۔جیسے ہم جانتے ہیں کہ پیاس کو پانی ہی بجھا سکتی ہے پٹرول یا ڈیزل نہیں۔لیکن اگر پٹرول سے پیاس کو بجھانے کی کوشش کی جائے تو نفع کے مقابلہ میں ضرر ہی اٹھانا پڑے گا۔اسی طرح سے ہم نے روح کے مجروح ہونے کے باعث پیدا ہونے والی پریشانیوں کا ازالہ مادی اشیاء کے ذریعے کرنا چاہا جس کے نتیجے میں روح مزید کمزور ہوتی گئی.دماغ کی رگوں میں مادی کائنات کی رنگینیوں کو دوڑایا،دل کے تہہ خانوں میں دولت کا رس بھر دیا، جسم کے ڈھانچے میں پیسوں کا گودا بھر دیا اور آخر کار ہم نے خود کو خود سے اور خدا سے غافل کردیا ۔ہم نے اچھے لباس، مظبوط مکان اور بہترین کھانے کی وجہ سے جسم کو مضبوط، توانا اور تندرست تو کر لیا لیکن روح کو اس مضبوط قلعہ میں قید کرکے نحیف بنا دیا ہے۔روح جب ایک طائرِ قفس کی طرح بے چین رہتی ہے تو پورا انسانی وجود یاس و ناامیدی کے گھیراو میں آتا ہے ۔
دنیائے انسانیت کا بے ہنگم ایک ہی رو میں چلنا تاکہ دنیا میں قیام قوی،نام نامی اور عوام کی خوشامد حاصل ہو ،یہ آج کی دنیا کی ضرورت، مقصد، مدعا اور منزل ہے ۔اس دنیاداری کی کہکشاں میں نہ جانے کتنے ستارے اپنا وجود گم کر بیٹھے ہیں ۔بڑے بڑے باصلاحیت اور ذہین و فہیم اس مادی دنیا کے وار سے نہیں نکل کے بچ پائے نتیجۃ ً اس محدود دنیا کی محبت میں اپنا تن، من اور دھن لگا کر بیکار بن کر دارِ فانی کو خیر باد کہہ گئے ۔اس کہکشاں کا نظارہ دور سے کرتے ہوئے میرا دل برابر اس کی طرف کھنچاجاتا ہے لیکن ایک ایسا نورانی منبع اور ذریعہ بھی ہے جس کی ایک ایک کرن سے کہکشاؤں کی دنیا آباد ہے۔قرآن مجید کے راہنما اصولوں کے مطابق یہ مادی دنیا ترقی کے منازل طے کر ری ہےلیکن ان اصولوں سے جہاں پر بھی روگردانی ہورہی ہے وہاں پر ایک عالمی ڈپریشن کی طرف اس کا اگلا قدم پڑتا ہے۔اس لئے قرآن مجید کے راہنما اصولوں کے مطابق زندگی گذارنے کا عزمِ سمیم انسان کو دائمی سکون قلب کی نعمت سے نوازتا ہے ۔سکون قلب کی ضرورت جتنی ایک مسلمان کو ہے اتنی ہی ایک غیر مسلم کو بھی ہے۔اس لئے غیر مسلم حضرات کو قرآن کا مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ وہ زندگی کی صحیح اسکیم سے متعارف ہو سکیں۔غیر مسلم حضرات کو بغیر کسی تعصب کے اسلام کا مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ یونیورسل پیس کا جو نعرہ دنیا دے رہی ہے اس کی تحصیل کا صحیح اور درست ذریعہ معلوم ہو سکے ورنہ بڑی بڑی نابغہ شخصیات حسرت لئے ہوئے خدا کی طرف لوٹتی ہے۔برناڈ شاہ ،ٹیگور، گوئٹے، امبیدکر، گاندھی وغیرہ وغیرہ اسلام کی حقانیت کے متعلق روحانی طور مطمئن ہونے کے باوجود مادی خواہشات کے حملوں سے نہ بچ پائے اور ایک سنگین کوتاہی کی کفن میں لپیٹ کر الله کی طرف لوٹ گئے ۔ایسا نہ ہو کہ ہم ان کی ذہانت و فطانت سے مرعوب ہو کر انہی کے نقش قدم پر چلیں اور پھر بے سود پچھتانے لگیں۔اس لئے اگر چہ روح کی تسکین کا انسان کو احساس بھی ہو لیکن پھر بھی مادی قفس کے اندر قید اور دماغ جیسے شاتر اعضاء کے حملے سے بچنا بھی ایک محال فعل ہے۔لیکن اگر ان تمام رکاوٹوں کا مقابلہ انسان کر لے تو اس کے لئے اصلی ،حقیقی و ابدی سچائی کو گلے لگانا اس کی تقدیر مبرم ہے۔اسی نسبت سے علامہ اقبال کی زبانی ایک واقعہ سنتے چلے جاتے ہیں ۔علامہ اقبالؒ کہتے ہیں ؛ “ایک انگریز جج کی بیوی نے جج کی وفات کے بعد اسلام قبول کرنا چاہا۔قبول اسلام کے وقت اسے بہت ڈرایا دھمکایا گیا۔اسے پوچھا گیا تم کیوں مسلمان بنتی ہو؟ کیا تمہیں دولت چاہیے؟ اس نے جواب میں کہا مجھےدولت کے انبار ہیں ۔مجھے کیا ضرورت۔پھر پوچھا گیا کیا تمہیں کوئی نفسانی خواہش ہے؟ اس نے جواب دیا میں عمر کی آخری دہلیز پر ہوں مجھے کون سی خواہش ہوگی ۔اسے پوچھا گیا کیا کوئی کتاب پڑھی ہے یا کسی مولوی نے بہکایا ہے۔اس نے جواب میں کہا نہ کتاب پڑھی ہے اور نہ کبھی کسی مولوی کو دیکھا ہے۔سب متحیر ہو کے پوچھنے لگے کہ پھر کیا وجہ ہے ۔اس نے کہا کہ میں جج کی بیوی تھی ہمارے تعلقات زیادہ تر ہندو کی امیر ،متمول اور روشن خیال عورتوں سے تھا۔مسلمان عورتیں جن کے ساتھ میرا تعلق تھا وہ سب غریب، محتاج اور میلی ہوتی تھیں ۔لیکن اس سب کے باوجود میں نے ہر جگہ ہندو اور مسلمان عورتوں میں ایک واضح فرق پایا ۔لیکن اس تفاوت پر میں شوہر کی وفات کے بعد اب تک غور کرتی رہی لیکن سبب معلوم نہ کرسکی ۔لیکن اب چند روز ہوئے میں نے سبب معلوم کر لیا ہے ۔عورت نے کہا میں نے معلوم کر لیا ہے کہ مسلمان چونکہ خدا پرست ہیں اور ایماندار ہیں اور ان کی روح پاک ہے اس لئے ان کے جسم اور اطوار میں فرق ہے۔یہ اعلان کرنے کے بعد وہ رونے لگی اور اپنے رشتہ داروں کو متنبہ کیا کہ مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو میں اسلامی توحید کے نور سے اپنی روح پاک کرنا چاہتی ہوں اوراس واسطے میں ضرور مسلمان ہونگی۔اسی وقت عورت نے کلمہ پڑھ کے اسلام قبول کیا”.اس کو کہتے ہیں روح کی تسکین کا ذریعہ حاصل کرنا ۔
مادیت کی ترقی سے لذت کا احساس انسان کو ایک نوع کا نشاط فراہم کرتا ہے لیکن اس کا ٹھہراو دیرپا نہیں ہوتا ۔یہ نشاط مانند حباب اپنا ایک وجود ابھر کے رکھتا ضرور ہے لیکن اسے معدوم ہونے میں چند لمحات بھی نہیں لگتے ۔اسی لئے مادیت کے بل بوتے پر خوشیاں حاصل کرنا معدومیت کی حامل ہوتی ہیں وہ دیرپا نہیں ہوتیں ۔ان میںکاملیت و دائمیت نہیں ہوتی۔اس کے برعکس روحانیت کی بنا پر خوشی حاصل کرنا ابدیت کی حامل ہوتی ہیں ۔وہ حاملین کو مادی وجود کھونے کے بعد بھی ابدی لطف و سرور کا احساس دیتی ہے۔روحانی خوشی کامل ہوتی ہے اور مادی خوشی ناقص ہوتی ہے۔
مادیت کی زنجیروں میں خود کو جکڑ کے رکھنا ایک جرم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فریبی عمل بھی ہے ۔کیونکہ مادیت کی زنجیر انسان کو دنیا میں مضبوط تو ضرور کرتی ہے لیکن سکونِ قلب سے محروم کرتی ہے۔سکونِ قلب حاصل کرنے کے لئے لوگ نہ جانے کون کون سی اداکاریاں کرتے ہیں لیکن پھر بھی اس کی تحصیل نہیں کر پاتے ۔کچھ لوگ پہاڑوں، بیابانوں میں چلے جاتے ہیں، کچھ آستانوں کا رخ کرتے ہیں، کچھ مزارات کی حاضری دیتے ہیں، کچھ بزرگوں کی زیارت کرتے ہیں وغیرہ۔ان چیزوں سے سکونِ قلب حاصل ہونے والی چیز قطعاً نہیں اگر دل میں خدا کو بسایا نہ ہو، سب سے زیادہ محبت اس کی اور اس کے رسول کی دل میں جاگزیں نہ ہو، اسلام ہی سب سے محبوب تر نہ ہو ۔اگر زیادہ محبت دنیا سے ہو اور لگاو خدا کی طرف ہو پھر بات بننے والی نہیں ہے۔بات تب بنے گی جب ان صلوتی ونسکی ومحیای و مماتی للہ رب العالمين کا زندہ احساس ہو۔آج لوگ خوشی تلاش کرنے کے لئے صاحبِ اقتدار اور مالدار لوگ کے گرد طواف کرنے لگ جاتے ہیں ۔لیکن انہیں ان لوگوں سے کیا سکون قلب حاصل ہو جو خود اس نعمت سے محروم ہوں ۔صحابہ رضوان اللہ اجمعین رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہ کر سکون قلب حاصل کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے دور رہنے کو بے قراری اور بے چینی کا سبب فرمایا کرتے تھے۔اس لئے سکون قلب کے لئے ہمیں قرآن اور سیرت کے مطالعے کی رفاقت رکھنی چاہیے ۔سکون قلب تب حاصل ہو گا جب ہر ہر لمحہ حیات کی تنظیم میں صرف اللہ کے احکامات کو مقدم رکھا جائے۔اس مقدم رکھنے کی اصلی شکل قرآن نے فزکرونی کے لفظ میں مستور رکھی ہے۔جب فذکرونی والا حصہ بندے کی طرف عملایا جائے تب اذکرکم والا حصہ پہ خدائی عمل ہوتا ہے اس وقت انسان کا دل روحانی سکون کی لذت سے آشنا ہوتا ہے۔دراصل سکون قلب کو قرآن نے اللہ کے ذکر کا مرہون منت رکھا ہے۔