احیاء اردو کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اپنی مادری زبان اور عالمی زبانوں سے نفرت کی جائے.
رہی بات قوموں کی ترقی کی اور زبان کا تعلق. میرے ناقص علم کے مطابق اس پہ بھی جرمنی، جاپان، چان اور عرب ممالک کی مثال کو ذرا غور سے دیکھنا ہو گا.
اقصادی اور اخلاقی طور پہ کمزور ممالک کوئی سی بھی زبان بول لیں وہ پیچھے رہیں گے.
جبکہ اقصادی اور اخلاقی لحاظ سے طاقتور ممالک کج زبان دوسرے ممالک خود بولیں گے.
پاکستان جیسے شدید کرپٹ، دیوالیہ کے قریب ملک جس جی عالم میں ایک منگتے، بدمعاش، جنونی جیسی ہے اس کو مزید اپنی مقامی زبان تک محدود کرنے کی کوشش اسے مزید پیچھے دکھیلنا اور تنہا کرنا ہو گا.
تگڑے کی زبان عالمی ہوتی ہے، کمزور جو بھی بولے کسی کو پرواہ نہیں ہوتی.
رہی بات اپنی ثقافت اور اپنی پہچان کو برقرار رکھنا تو اردو کو اپنی اصل حالت میں رکھنا ضروری اور مقامی زبانیں اردو سے بھی پرانی اور شاندار تاریخ رکھتی ہیں جیسے پنجابی سندھی، پشتو، بلاچی، سرائکی، پوٹھوہاری وغیرہ.
اردو سے کہیں زیادہ زبردست جڑت اپنی مقامی آبادی اور ثقافت سے موجود ہے.
رہی عامی زبان تو ہمیں آجکل انگریزی اور آئندہ کے لئے چینی زبان کو سیکھنا عین ضرورت اور عقلمندی ہوگا. عالمی فورموں پہ پاکستانیوں کی کمزور انگریزی کے مذاق بننے کا شا ہد ہوں اور سائنسدان تک اپنی کمزور انگریزی کی وجہ سے شدید احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں. جبکہ بھارتی، بنگالی، عرب، چینی، افریقی اپنی بہتر انگریزی کی وجہ سے عالمی کانفرنسوں میں اعتماد سے اظہار خیال کرتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں.
حقیت یہ ہے کہ مجموعی طور پہ باقی معاملات کی طرح اردو، انگریزی اور اپنی مادری زبانوں میں بھی کمزور ہیں. میرے تجزئے کے مطابق تینوں کو بہتر کرنا ہوگا.
1. انگریزی کو نمبر 1 پہ. تا کہ ہم عالمی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں. رمن انگریزی نہیں جو اعتماد سے بول لکھ سکیں.
2. اردو. اپنی قومی زبان کو بغیر اردو ادب کے اصل حالت میں نہیں رکھ سکتے. اور کتاب کا مطالعہ ختم ہو چکا. اس کا احیاء کیسے ممکن. یہ سوچنے والی بات
3. مقامی زبان. اپنی ثقافت، اپنی دھرتی سے جڑت اس کے بغیر ممکن ہی نہیں اور مجھے پنجابی سے سب سے زیادہ پیار ہے. شہزاد بسراء