قمری یا ہجری تقویم کو بعض ممالک میں اسلامی تقویم بھی کہا جاتا ہے۔ ہجری تقویم سے مراد تواریخ کا حساب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت سے لگانا ہے۔ اس میں جو مہینے استعمال ہوتے ہیں ان کا استعمال اسلام سے پہلے بھی تھا۔ جس میں سے محرم پہلا مہینہ ہے۔ چونکہ یہ قمری تقویم ہے لہذا اس کا ہر مہینہ چاند کو دیکھ کر شروع ہوتا ہے۔ ابتدائے اسلام میں مسلمانوں میں عمومی طور پر تاریخ نویسی کا دستور رائج نہیں تھا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسلامی تقویم کا اجرا حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے مشورے پر کیا گیا ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ آپ کی طرف سے حکومت کے مختلف علاقوں میں خطوط روانہ کیے جاتے ہیں مگران خطوط پر تاریخ درج نہیں ہوتی حالانکہ تاریخ لکھنے کے بے شمار فوائد ہیں اور ریکارڈ کے محفوظ رکھنے میں کافی سہولت ہے، آپ نے خط کس دن تحریر کیا، کس دن روانہ کیا، کب پہنچا، کس دن حکم جاری ہوا، کس دن اور کس وقت سے اس پر عمل کا آغاز ہوا، ان سب باتوں کے جاننے اور سمجھنے کا دارومدار تاریخ لکھنے پر موقوف ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی اس مدلل بات کو بہت معقول سمجھا اور بہت سراہا، فورا مشورے کے لیے اکابر صحابہٴ کرام کی ایک میٹنگ بلائی اور یہ تجویز ان کے سامنے رکھی۔ مجلس شوریٰ میں شامل تمام اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ تجویز بہت پسند آئی۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں مشورہ طلب کیا کہ تاریخ کا ریکارڈ کیسے رکھا جائے اور سال کو کیسے شروع کیا جائے۔ حضرت عمر کے مطالبے پر اکابر صحابہ کرام کی جانب سے 4 قسم کی آرا کا اظہار کیا گیا۔
چار آرا سامنے آنے کے بعد صحابہ کرام میں ان سے متعلق بحث و مباحثہ شروع ہوا، کافی غور وخوض کے بعد فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ ولادت یا نبوت کی تاریخ اور دنوں میں اختلاف کے باعث ولادت یا نبوت سے اسلامی سال کے آغاز کرنے میں اختلاف رونما ہوسکتا ہے اور وفاتِ نبوی سے اسلامی سال کی ابتداء کرنا اس لیے مناسب نہیں کہ وفاتِ نبوی کا سال اسلام اور مسلمانوں کے لیے رنج وغم اور صدمہ کا سال ہے اس لیے ہجرت سے اسلامی سال کا آغاز کرنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ ہجرت نے حق وباطل کے درمیان واضح امتیاز پیدا کیا، اسی سال سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام امن وسکون کے ساتھ بلاخوف وخطر پروردگار کی عبادت کرنے لگے، اسی سال مسجدِ نبوی کی بنیاد رکھی گئی جو دراصل دینِ اسلام کی نشرواشاعت کا مرکز تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیان کردہ ان دلائل ووجوہ کی بناء پر تمام صحابہٴ کرام کا اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ اسلامی سال کی ابتداء ہجرت کے سال سے ہی کی جائے۔
مسلمانوں کی مکہ سے مدینہ کی جانب سے ہجرت سے اسلامی سال کا آغاز کرنے کے بعد یہ چیلنج درپیش آیا کہ اسلامی سال کا آغاز کس مہینے سے کیا جائے۔ اس معاملے پر بھی صحابہ کرام نے مختلف آرا کا اظہار کیا۔ ان تمام آرا پر غورو فکر اور مشاورت کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باہم مشورے کے بعد محرم الحرام کو ترجیح دی کیونکہ زمانہٴ جاہلیت میں بھی عرب میں سال کا پہلامہینہ محرم کو قرار دیا جاتا تھا اور مہینوں کے نام یعنی محرم الحرام، صفر، ربیع الاوّل، ربیع الثانی، جُمادی الاولیٰ، جُمادی الثانی، رجب، شعبان، رمضان، شوال، ذی قعدہ، ذی الحجہ کلاب بن مرّہ کے زمانے میں تقریباً اسلام سے 200 سال پہلے متعین کیے گئے تھے اس لیے صحابہٴ کرام نے جب ہجرت کے سال سے سن کی ابتداء کی، تو سن کے مہینے کے لیے محرم الحرام کے مہینے کا انتخاب کیا؛ تاکہ نظامِ سابقہ بھی اپنی اصلی حالت پر باقی رہے اور نظام میں کوئی گڑبڑی نہ ہو۔