آج پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں رواں سال کا پہلا سورج گرہن لگا ہے۔ سورج گرہن کو مذہب اسلام کی روشنی میں خدا کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی کہاگیاہے۔
سورج گرہن اس وقت وقوع پذیر ہوتا ہے جب چاند زمین اور سورج کے درمیان آجاتا ہے۔
سورج اور چاند کے میلاپ، اورچاند کی بے نوری کا ذکر قران کریم کی سورۃ القیامہ میں آیا ہے۔ قرآن پاک کی 75 ویں سورۃ کی آیت نمبر چھ سے گیارہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
“پوچھتا ہےکہ قیامت کا دن کب ہوگا۔پس جب آنکھیں چندھیا جائیں گی۔اور چاند بے نور ہو جائے گا۔اور سورج اور چاند اکھٹے کیے جائیں گے۔اس دن انسان کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے۔ہرگز نہیں کہیں پناہ نہیں۔”
سورہ القیامہ کی تمام چالیس آیات کا ترجمہ آپ یہاں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمان الرحیم۔
قیامت کے دن کی قسم ہے۔
اور پشیمان ہونے والے شخص کی قسم ہے۔
کیا انسان سمجھتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کریں گے۔
ہاں ہم تو اس پر قادر ہیں کہ اس کی پور پور درست کر دیں۔
بلکہ انسان تو چاہتا ہے کہ آئندہ بھی نافرمانی کرتا رہے۔
پوچھتا ہےکہ قیامت کا دن کب ہوگا۔
پس جب آنکھیں چندھیا جائیں گی۔
اور چاند بے نور ہو جائے گا۔
اور سورج اور چاند اکھٹے کیے جائیں گے۔
اس دن انسان کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے۔
ہرگز نہیں کہیں پناہ نہیں۔
اس دن آپ کے رب ہی کی طرف ٹھکانہ ہے۔
اس دن انسان کو بتا دیا جائے گا کہ وہ کیا لایا اور کیا چھوڑ آیا۔
بلکہ انسان اپنے اوپر خود شاہد ہے۔
گو وہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔
آپ (وحی ختم ہونے سے پہلے) قرآن پر اپنی زبان نہ ہلایا کیجیے تاکہ آپ اسے جلدی جلدی (یاد کر) لیں۔
بے شک اس کا جمع کرنا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔
پھر جب ہم اس کی قرآت کر چکیں تو اس کی قرات کا اتباع کیجیے۔
پھر بے شک اس کا کھول کر بیان کرنا ہمارے ذمہ ہے۔
ہرگز نہیں بلکہ تم تو دنیا کو چاہتے ہو۔
اور آخرت کو چھوڑتے ہو۔
کئی چہرے اس دن تر و تازہ ہوں گے۔
اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔
اور کتنے چہرے اس دن اداس ہوں گے۔
خیال کر رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ دینے والی سختی کی جائے گی۔
نہیں نہیں جب کہ جان گلے تک پہنچ جائے گی۔
اور لوگ کہیں گے کوئی جھاڑنے والا ہے۔
اور وہ خیال کرے گا کہ یہ وقت جدائی کا ہے۔
اور ایک پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ جائے گی۔
تیرے رب کی طرف اس دن چلنا ہوگا۔
پھر نہ تو اس نے تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی۔
بلکہ جھٹلایا اور منہ موڑا۔
پھر اپنے گھر والوں کی طرف اکڑتا ہوا چلا گیا۔
(اے انسان) تیرے لیے افسوس پر افسوس ہے۔
پھر تیرے لیے افسوس پر افسوس ہے۔
کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔
کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔
پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔
پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔
پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔
۔
(ترجمہ بحوالہ قرآن اردواوآرجی)
اسی طرح اگر احادیث مبارکہ کا ذکر کریں توبخاری شریف کی ایک حدیث کے مطابق ” حضرت ابوبردہ، حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ سورج گرہن ہوا تو نبی ﷺ اس طرح گھبرائے ہوئے کھڑے ہوئے جیسے قیامت آ گئی، آپ ﷺ مسجد میں آئے اور طویل ترین قیام و رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھی کہ اس سے پہلے آپ ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جو اللہ بزرگ و برتر بھیجتا ہے، یہ کسی کی موت اور حیات کے سبب سے نہیں ہوتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، جب تم اس کو دیکھو تو ذکرِ الٰہی اور دعا واستغفار کی طرف دوڑو“ ۔(صحيح البخاري (2/ 39))