جن بھوتوں اور چڑیلوں کے متعلق ہم قصے کہانیوں میں پڑھتے سنتے آئے ہیں لیکن عائشہ مظفر نامی مصنفہ ویب سائٹ ’مینگوباز‘ پر جنات اور چڑیلوں سے متعلق حقیقت پر مبنی ایسی کہانیاں بیان کرتی رہتی ہیں کہ سن کر بدن میں جھرجھری دوڑ جائے۔ عائشہ مظفر کے والد کے پاس جنات تھے چنانچہ وہ ’ابو کے جن‘ کے نام سے لکھتی ہیں اور اپنے باپ کے بیان کردہ قصوں کے علاوہ ایسے ہی دیگر لوگوں سے سنی ہوئی کہانی بھی بیان کرتی ہیں۔ گزشتہ دنوں عائشہ نے جن نکالنے والے ایک آدمی ’عدنان‘ کا بیان کردہ ایک خوفزدہ کر دینے والا واقعہ بیان کیا ہے۔ عائشہ مظفر لکھتی ہیں کہ عدنان ان دنوں بھارت کے دیہی علاقے میں سفر کر رہے تھے کہ وہاں اس کی ملاقات کچھ لوگوں سے ہوئی۔ گفتگو کے دوران عدنان نے انہیں بتایا کہ وہ مسلمان ہیں اور جن بھوت نکالتے ہیں۔ ان لوگوں میں سب سے پیچھے ایک آدمی بیٹھا تھا جو عدنان کی یہ بات سن کر اس کے پاس آ گیا اور اس سے کہا کہ ’’مجھے آپ کی مدد چاہیے۔‘‘
عدنان نے مزید بتایا کہ ’’وہ شخص مجھے لے کر اپنی جیب میں چلا گیا اور کہا کہ مجھے دوسری شادی کرنی ہے، جس کے لیے مجھے آپ کی مدد چاہیے۔ میں نے اس آدمی سے کہا کہ میں رشتے کروانے کا کام نہیں کرتا لیکن اس نے میری بات ان سنی کرکے اپنی بات جاری رکھی اور کہا کہ اس کی پہلی بیوی کوئی عورت نہیں بلکہ ایک چڑیل ہے۔ اس آدمی نے بتایا کہ جب وہ سترہ اٹھارہ سال کا تھا تو ایک جگہ جا رہا تھا۔ راستے میں کھیتوں سے گزرتے ہوئے ایک انتہائی خوبصورت خاتون اس کے سامنے آ گئی اور اسے کہا کہ وہ اپنے باپ کے گھر جا رہی ہے اور تم بھی میرے ساتھ چلو کیونکہ مجھے رستہ معلوم نہیں۔ اس آدمی نے کہا کہ میں بھی اس علاقے میں اجنبی تھا چنانچہ خاتون سے کہہ دیا کہ مجھے بھی راستہ معلوم نہیں لیکن خاتون میرے آگے آ کر کھڑی ہو گئی اور مجھے میری چھاتی سے پکڑ لیا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ یہ کوئی عورت نہیں بلکہ چڑیل وغیرہ ہے۔ اس پر میں وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ جب میں گھر اپنی ماں کے پاس پہنچا تو مجھے تیز بخار ہو رہا تھا۔ ‘‘
آدمی نے مزید بتایا کہ ’’وہ چڑیل میرے گھر بھی آ گئی اور مجھ سے زبردستی شادی کر لی۔ آج اس بات کو 18سال ہو گئے ہیں۔ وہ چند دن کے وقفے سے رات کو میرے پاس آتی ہے۔ وہ میرے لیے کھانا بھی لے کر آتی ہے اور وہ کھانا ایسا ہوتا ہے کہ دنیا میں میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ وہ اتنا مزیدار ہوتاہے کہ میں اسے کھانے سے انکار نہیں کر پاتا۔ وہ میری دوسری شادی نہیں ہونے دیتی تھی۔ جب یہ واقعہ ہوا تو چند ماہ بعد میری ایک کزن کے ساتھ میری شادی طے پا گئی تھی۔ شادی کی تاریخ بھی طے ہو گئی لیکن پھر شادی سے چند دن قبل میری منگیتر نے کنویں میں کود کر خودکشی کر لی۔ میں کسی خاتون سے بات نہیں کر سکتا، یا کسی خاتون کو پسند نہیں کر سکتا۔ میں جب بھی ایسا کرتا ہوں، میرا کوئی بڑا نقصان ہو جاتا ہے۔ ایک بار ایسا کرنے پر میری ماں کی موت ہو گئی اور دوسری بار میری بہن کا اسقاط حمل ہو گیا۔‘‘
عائشہ مظفر لکھتی ہیں کہ عدنان نے اس آدمی کی باتیں سن کر اس کا چڑیل سے پیچھا چھڑوانے کا فیصلہ کیا۔ عدنان نے مجھے بتایا کہ ’’میں نے اس آدمی کو کچھ نصیحتیں کی کہ جب چڑیل آئے تو تمہیں کیا بولنا ہے اور کیا کرنا ہے۔ اس کے بعد میں نے پڑھائی کی اور جب چڑیل آئی تو اس آدمی نے میری بتائی ہوئی بات چڑیل کو بول دی۔ اس نے چڑیل سے کہا کہ ’میں نے مذہب تبدیل کر لیا ہے اور اب میں مسلمان ہو چکا ہے۔ اب تم اللہ کی مرضی کے بغیر میرے ساتھ کچھ نہیں کر سکتی ہو۔‘ کچھ دیر تک اس آدمی کی حالت غیر رہی اور پھر وہ بے سدھ ہو کر میری گود میں گر گیا۔ اس کے پورے جسم پر ناخنوں سے پڑنے والی خراشیں موجود تھیں۔ میں نے پوچھا کہ چڑیل نے کیا کہا تو اس نے بتایا کہ ’’چڑیل کہہ کر گئی ہے کہ وہ مجھ سے بہت محبت کرتی ہے اور مجھے کبھی نہیں چھوڑے گی۔ وہ واپس آئے گی۔‘‘ یہ کہہ کر آدمی میری گود میں سر رکھے ہی رونے لگا اور اتنا رویا کہ میرے کپڑے گیلے ہو گئے۔میں دو سال تک اس علاقے میں رہا، تب تک چڑیل اس آدمی کے پاس واپس نہیں آئی تھی۔ پھر میں واپس آ گیا۔ میں اب بھی سوچتا ہوں کہ کبھی اس آدمی کے پاس جائوں اور اس سے پوچھوں کہ آیا چڑیل واپس آئی تھی یا نہیں۔ ‘‘