انتخاب رخسانہ جبین
مشکل وقت میں لوگوں کی باتوں اور نفرت انگیز رویوں سے اذیت کشیدنا پھر اس کو رگ رگ میں خون کی مانند دوڑانا کیا مشکل ہے ؟
یقین جانیے اس طرز عمل میں ذرا دشواری محسوس نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔برسوں سے ہم نے اپنے دماغ میں اپنے رویوں کا یہی پیٹرن سیٹ کر رکھا ہے۔۔۔۔۔کہ مجھے ملا کیا ہے سب سے جو میں تلخ نہ بنوں ؟ ۔۔۔۔۔مجھے کس نے سمجھا جو میں کسی کو سمجھوں ؟……….مجھے نفرت دینے والوں نے مجھے ایسا بنایا۔۔۔۔۔۔تو اب بدلے میں مجھے بھی وہی دینا ہے ۔
اردگرد اسی پیٹرن پر عمل پیرا انسان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نتیجہ ۔۔۔۔۔۔۔رنجشیں ۔زیادتیاں اور نفرتیں ۔۔۔۔۔
کل ہی کسی سے سنا کہ ۔۔۔میری روح کے زخم اس وقت تک نہیں بھریں گے جب تک اس فرد کی بربادی نہ دیکھ لوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انتقام کی آگ میں جلنے والے ، بددعاوں ،حسد جلن کی سنگت زندگی گزارنے والے خود جس کرب میں مبتلا ہوتے ہیں اس کا تصور ہی بہت اذیت ناک ہے۔
مرنے والامر جاتا ہے اور اس کی اولاد اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے انتقام پر مبنی ایجنڈہ پھیلائے بیٹھی ہوتی ہے۔۔۔۔نسل در نسل وہی کہانی ۔۔۔۔۔۔۔۔خوشی پھر بھی حاصل نہیں ۔۔۔۔۔یہ زخمی روحیں ،۔۔۔۔۔۔ان کے رستے زخم ۔۔۔۔اور ان کی تکلیفیں کیوں کر ختم ہون گی یا ہو سکتی ہیں ۔۔۔۔۔۔اصل مسئلہ کہاں ہے فرد میں؟ ماحول میں؟ یا زندگی گزارنے کے من چاہے تصور میں ؟
ذرا سوچیں کہ
دنیا میں من چاہی زندگی کس نے گزاری ہے؟
زندگی کا سانچہ ہی ایسا ہے کہ وہ کسی خاص شکل میں ڈھل نہیں سکتی۔
اس کے اپنے ہی رنگ ہیں۔کچھ پھیکے،کچھ شوخ۔
ہماری غیر حقیقی توقعات اور خواہشات اصل رنگوں سے بھی لطف اٹھانے نہیں دیتے۔کہیں کوئی کمی ، کہیں کوئی مسئلہ ،کوئی خلش
ہر احتیاطی تدابیر کے باوجود ۔۔۔۔۔ ہر ممکن اطمینان حاصل کرنے کے بعد بھی
کچھ بھی ہو سکتا ہے جو مضطرب ۔۔۔۔۔ غمزدگی اور انتشار کا باعث بن سکتا ہے
اور یہی تقدیر پر ایمان ہے کہ جو تکلیف ملنی ہے مل کر رہے گی ۔جو غم لکھا ہے اس سے آشنائی لازمی ہوگی
جس کرب سے گزرنا ہے وہ رستہ بدلنے پر بھی ضرور سامنے آئے گا۔
جس نے مایوسی کی چادر اوڑھ کر
اپنے آپ کو ان فکروں کے حوالے کر کے مضطرب رہنے کا فیصلہ کر لیا ہو تو اس کے خواب بکھر جاتے ہیں اورا س کے آنسو کبھی نہیں تھمتے ۔ من چاہی زندگی کا سپنا ہی دراصل ایک کمفرٹ زون ہوتا ہے جس سے نکلنا بڑا دشوار ہوتا ہے۔یہ نفرتوں کا ، تلخیوں کا بے عملی کا ایک کمفرٹ زون ہے جس سے باہر آنے کے لیے
اپنی کر چیوں کو سمیٹنے کی ہمت خود ہی کرنی پڑتی ہے۔
مضبوط رہ کر اپنا آپ بچانے کا اختیار تو حاصل کرنا پڑتا ہے ۔
یہ جو غموں دکھوں کی کہانی ہے اس کا اختتام کب ہوگا ۔۔۔۔۔ فیصلہ میرے پاس ہے۔
اور تکلیف دہ لمحات میں نشاط انگیزی صرف اس بات میں ہے کہ یہ تکلیفیں کس کے رستے اور کس مقصد میں چلنے سے آرہی ہیں؟
یہ جو اپنی راہ کا انتخاب ہے یہی اصل میں زندگی کو پرسکون کرنے کا راز ہے۔
ہسپتالوں میں زندگی بچانے کے لیے لاکھوں روپے کے بل ادا کر کے بھی موت لے کر جانے والے بے بس انسان کے بس میں جو سب سے بڑی طاقت ہے وہ اسی انتخاب کے فیصلے کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ بے مقصد لاحاصل زندگی کے نشیب و فراز میں الجھ کر اپنے آپ کو بے مول کر دینا یا ایک با مقصد رضائے الٰہی کے مطابق زندگی کا انتخاب ۔۔۔۔تقدیر میں لکھی مشکلات کا سامنا رب العالمین کے رستے میں کر کے اپنے آپ کو انمول بنا لینا ۔
نگہت حسین