کینیڈا کے شہر واٹر لو میں صبح صبح ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا یہ کالم لکھ رہا ہوں، باہر ہلکی ہلکی برف باری ہو رہی ہے،شیشے کی کھڑکی سے باہر روئی کے نرم نرم اڑتے ہوئے گالوں کی طرح گرتی برف عجیب نظارہ دکھا رہی ہے۔،میں نے گرم گرم چائے کا گھونٹ لیا اور لیپ ٹاپ پر کالم ٹائپ کرنا شروع کر دیا۔ قارئین،کینیڈا میرا دوسرا وطن بن چکا ہے، یہاں کی واٹر لو یونیورسٹی اور کونسٹوگا کالج میں میری بیٹیاں پڑھتی ہیں، میری اہلیہ مستقل ان کے پاس ہیں، جبکہ مَیں زیادہ عرصہ پاکستان میں گزارتا ہوں اور ہر تیسرے چوتھے مہینے ان کو ملنے چلا آ تا ہوں۔اس وقت میری عجیب کیفیت ہے،کبھی برف باری کا نظارہ کرتا ہوں اور کبھی سامنے لگے ٹی وی پر پاکستان کے حالات سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رہنے کے لئے پاکستانی نیوز چینلوں پرنظر دوڑاتا ہوں۔کوئی دو ہفتے قبل پاکستان سے یہاں پہنچا تو پت جھڑ کا خوبصورت نظارہ اپنے اختتام کو تھا اور درختوں پر بہت کم رنگ برنگے پتے نظر آرہے تھے،تیز ہوائیں درختوں اور پتوں کی خوبصورتی کو اڑا چکی تھیں۔ اب فال سیزن سنو فال سیزن میں تبدیل ہو چکا ہے۔
ینیڈا برفیلے کوہساروں،پھولوں سے لدے مرغزاروں،بلندی سے گرتی آبشاروں اور میٹھے پانی کی جا بجا بکھری ہزاروں جھیلوں کا دیس ہے۔سردو گرم موسموں،ایک طرف سمندر کے کھارے پانیوں اور دوسری طرف میٹھے پانیوں کے ذخائر، ہر رنگ،نسل،ذات، مذہب، ملک کے افراد پر مشتمل دنیا بھر کے تارکین وطن کا ایک ایسا گلدستہ ہے، جس کی خوشبو سے اس کے طول و عرض ہر وقت مہکتے رہتے ہیں۔کینیڈا کسی دور میں برف کا جہان تھا،یہاں کے اصل باشندے آج بھی شہری آبادیوں میں رہنے کے بجائے قطب شمالی کی برفیلی چوٹیوں پر بسیرا کئے ہوئے ہیں۔کینیڈا کی ماضی کی تہذیب وقت کی گرد تلے کہیں دفن ہوچکی ہے، اس وقت یہاں یورپی تمدن کاغلبہ ہے۔ برطانیہ اور فرانس نے اس خطہ زمین پر تسلط کے لئیطویل جنگ لڑی،اگر چہ کینیڈا امریکہ کے قریب واقع ہے، جس کی وجہ سے اسے جنوبی امریکہ بھی کہا جاتا ہے،مگر یہ ملک ایک عرصہ یونین جیک کے زیر اثر رہا اور یہاں ملکہ برطانیہ کا سکہ چلتا رہا۔تاریخ دانوں کے مطابق 14ہزار سال قبل پہلے تارکین، سمندر کے راستے یہاں آکر آباد ہوئے۔انسانی تاریخ کی قدیم ترین یادگاریں بھی ”اولڈ کرو فلیٹس“اور”بلیو فش کیوز“ کے نام سے یہاں آج بھی موجود ہیں۔
کینیڈا کے برطانوی کالونی بننے کے بعد بڑی تعداد میں برطانوی باشندوں نے نقل مکانی کر کے کینیڈا میں رہائش اختیار کی۔فرانس سے بھی بڑی تعداد میں تارکین وطن نے کینیڈا میں سکونت اختیار کی۔یورپ سے آنے والے تارکین کی آباد کاری کے خلاف مقامی لوگوں نے ہلکی پھلکی مزاحمت بھی کی،مگر جلد ہی ان کو قسمت کا لکھاسمجھ کر قبول کر لیا۔ برطانیہ کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں مقامی باشندوں نے سرگرمی سے حصہ لیا،پھر مقامی لوگوں نے تارکین سے ازدواجی بندھن بھی باندھنا شروع کر دیا، جس سے ایک نئی نسل نے جنم لیا جو مقامی آبادی اور تارکین میں قریبی مراسم کا سبب بنی۔اٹلی اور پرتگال نے بھی یہاں کی دولت میں سے اپنا حصہ وصول کرنا شروع کیا اور کینیڈا کے سمندروں میں ماہی گیری کاپیشہ اپنایا۔ آج بھی کینیڈا میں اکثر شہروں کے نام برطانیہ اور فرانس کے شہروں سے منسوب ہیں۔طویل جنگوں کے بعد 1763ءمیں برطانیہ کینیڈا کے بیشترحصے پر تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔اس دوران برطانیہ اور فرانس اپنی زبان اور تہذیب کے نفاذکے لئے مسلسل کوششوں میں مصروف رہے۔اس کوشش میں کبھی کبھار تشدد بھی در آتا، جنگ کی نوبت بھی آتی رہی،1812 میں امریکہ اور برطانیہ میں بھی کینیڈا کی سرحدوں کے حوالے سے جنگ ہوئی، جس کے بعد کینیڈا کی مستقل سرحدکا تعین کیا گیا۔
1867ءمیں صوبوں کا قیام عمل میں آیا،1905ءمیں نئے صوبے قائم کئے گئے۔اس وقت کینیڈا میں دس صوبے ہیں،99لاکھ80ہزار مربع کلو میٹر پر محیط کینیڈا کی 80فیصد آبادی شہری ہے، جبکہ زیادہ تر زمین پر جنگلات ہیں۔ برطانوی کالونی کی حیثیت سے پہلی جنگ عظیم میں بھی کینیڈا سے فوجی بھرتی کی گئی۔اس جنگ میں چھ لاکھ 25ہزار کینیڈین شہریوں نے حصہ لیا، جن میں سے60ہزار مارے گئے، اورایک لاکھ 72ہزار زخمی ہوئے۔ کینیڈا ایک پارلیمانی جمہوری ملک ہے، کرپشن سے عاری ممالک میں کینیڈا کا پہلا نمبر ہے،حکومتی سطح پر شفافیت بھی اس کا خاصہ ہے کہ شہریوں کا بلند ترین معیار زندگی بھی کینیڈا کی خصوصیت ہے۔ شہری آزادی کے حوالے سے بھی کینیڈا کو ممتاز مقام حاصل ہے،پابندیوں سے آزاد معیشت بھی کینیڈین معاشرے کا ایک لازمی حصہ ہے،شرح خواندگی اور معیار تعلیم میں بھی کینیڈا کو خاص مقام حاصل ہے،تیزی سے ترقی کرتی معیشت دنیا کی چند بڑی معیشتوں میں شمار ہوتی ہے،مختصر مدت میں ترقی یافتہ ملک بننے میں شہریوں کو حاصل آزادی اور قانون کی حکمرانی ہے،کینیڈا سب سے زیادہ فی کس انکم حاصل کرنے والادنیا کا 15واں ملک ہے، انسانی ترقی میں کینیڈا دنیا میں 12 ویں نمبر پر ہے،معاشی ترقی میں کینیڈا دسواں بڑا ملک ہے۔
کینیڈا دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ہر رنگ، نسل،ذات،مذہب اور ملک سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں،مگر اس کے باوجود نفرت، عصبیت نام کے کسی جانور کا وجود نہیں،سب بھائی چارے اور اخوت سے رہتے ہیں،ایک دوسرے کے غم خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔ دیانتداری سے کہا جائے تو اسلام نے دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے جو پیغام انسانیت کو دیا،کینیڈا میں وہ عملی طور پر رائج ہے،اسی کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا کا ہر شخص کینیڈا میں مستقل سکونت اختیار کرنے کا خواہشمند ہے۔ کینیڈا کی حکومت ہر مکتب فکر کے لوگوں کو تحفظ اور من مرضی سے زندگی بسر کرنے کا موقع دیتی ہے۔جھوٹ، بددیانتی،دھوکہ دہی کی وارداتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، ہر شہری اپنے مذہبی عقائد کی روشنی میں زندگی گزارنے میں مکمل آزاد ہے،مذہبی رسومات اور عبادات پر بھی کوئی پابندی نہیں، مگر دوسری طرف اس کی وجہ سے شہری زندگی بھی متاثر نہیں ہوتی جو ہمارے لئے سوچنے کی بات ہے۔