متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش سمیت کئی دیگر ممالک کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے اور اسے تسلیم کرنے کے بعد اب سعودی عرب پر بھی امریکہ کا دباﺅ اثر دکھانے لگا ہے اور وہاں بھی اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے کا معاملہ نہ صرف زیربحث آ گیا ہے بلکہ مبینہ طور پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اس کی حمایت بھی کر دی ہے۔ میل آن لائن کے مطابق سعودی عرب کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے کے معاملے پر سعودی شہزادوں میں تفریق پائی جا رہی ہے۔ کئی شہزادے اس کے مخالف ہیں جبکہ ولی عہد سمیت کئی شہزادے اس کے حامی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل کو بطور ملک تسلیم کرنے اوراس کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کے مخالف سعودی شہزادوں میں سے ایک شہزادے کا کہنا ہے کہ ”اسرائیل مشرق وسطیٰ میں آخری مغربی نوآبادیاتی طاقت ہے، چنانچہ اسے بطور ملک تسلیم نہیں کیا جانا چاہیے۔“امریکی دباﺅ کے پیش نظر متحدہ عرب امارات اور بحرین سمیت کئی ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں اور اس کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں تاہم سعودی عرب نے تاحال امریکی دباﺅ کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے تھے۔ گزشتہ ماہ اسرائیل کے سرکاری میڈیا کی طرف سے یہ خبر بھی دی گئی کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے سعودی عرب کا دورہ کیا ہے اور وہاں شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی ہے تاہم سعودی عرب کی طرف سے اسرائیلی میڈیا کے اس دعوے کی تردید کر دی گئی تھی۔
اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے مخالفین میں ولی عہد کے کزن شہزادہ ترکی الفیصل بھی شامل ہیں جو سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ہمسایہ عرب ممالک کی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے، عرب ممالک نے نہیں۔اس نے فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا اور ان کے گاﺅں کے گاﺅں اجاڑ ڈالے۔ اسرائیل کا تشخص عرب ممالک کے لیے ایک خطرناک ملک کا سا ہے جو خون کے پیاسے قاتلوں میں گھرا ہوا ہے اور بظاہر لگتا ہے کہ وہ اپنے ہمسایوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے۔ اس کے باوجود اسرائیلی سعودی عرب کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں؟“