بہت نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ باہر کے ممالک میں زیادہ مواقع ہیں یہ سچ نہیں ہے کیونکہ مواقع صرف محنتی کے لئے ہوتے ہیں اور محنتی لوگ اس موقع کو غنیمت جانتے ہیں اور محنت اور لگن سے کامیابی کی منازل طے کر لیتے ہیں, احسان دانش نے اینٹیں اٹھا کر اپنا پیٹ پالنا شروع کیا لیکن اُن کے اندر شاعری کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا,آخر ایک دن ایسا آیا کہ جس یونیورسٹی کی دیواروں کی اینٹیں اُنہوں نے خود اٹھائی تھیں اُسی یونیورسٹی کی چھت تلے ان کی صدارت میں مشاعرہ ہوا۔
ایک نوجوان اپنے پورے تعلیمی کئریر میں بہت اعلی نمبر اور پوزیشن حاصل نہیں کر سکا لیکن اس کے دل میں ایک خواہش جنون بن کر دوڑ رہی تھی کہ مجھے اپنے ملک پاکستان کے لئے کچھ کرنا ہے،آخر اس کا جذبہ رنگ لے آیا اور اس نے ہمارے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر دکھایا، پاکستان کی تاریخ میں اسی نوجوان سائنس داں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام کبھی نہیں مٹ سکتا ، لوگ ہمیشہ اُنھیں “محسنِ پاکستان ” کی حیثیت سے جانتے رہیں گے۔
کرا چی کے مختلف بازاروں میں ایک بچہ گولیاں ٹافیاں بیچا کرتا تھا ،غربت کے غم کو مٹانے کے لئے اس نے بہت محنت کی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک بہت بڑے مشن کی تکمیل کے لئے بھیجا تھا ،اُس کے پاس ہر انسان کے لئے ہمدردی اور محبت تھی، دوسروں کی بے لوث مدد کرنے سے اس کی روح کو چین ملتا تھا ،اُس کی محنت ایک دن رنگ لے آئی اور وہ دنیا کا سب سے بڑا ایمبولینس موبائل سسٹم بنانے میں کامیاب ہو گیا ،اس کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی درج ہوا اور اس کی محنت اور ہمت کی بدولت “ایدھی ” نام کا ایک بڑا فلاحی ادارہ پورے ملک میں سر گرم عمل ہو گیا ،ہم سب محترم عبد الستار ایدھی صاحب کے شکر گزار ہیں کہ وہ اِنسانیت کے لئے اتنی خدمت کر کے اس دنیا سے گئے، اِن کی زندگی بلاشبہ ایک بے مثال زندگی ہے۔
جاوید چودھری لالہ موسیٰ کے ایک انتہائی پسماندہ گاؤں میں پیدا ہوئے، اپنی تعلیم پوری کرنے کے بعد شعبہ صحافت سے وابستہ ہو گے، کالموں کا سلسلہ شروع ہوا تو اُنہوں نے اپنے کالموں کو اتنے منفرد انداز میں لکھا کہ آج وہ پاکستان کے نامور ترین کالم نگار ہیں اور اُن کی کتاب “زیرو پوائنٹ ” کے لا تعداد ایڈیشن چھپ چکے ہیں ۔
گلی محلوں اور پارکوں میں کھیلنے وال شعیب اختر جسمانی اور نفسیاتی بیماری کے باوجود محنت سے اپنی دنیا بناتا ہے اور ایک دن ایسا آتا ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے بلے بازوں کی وکٹیں اس کی گیند کی تیزی سے اڑ جاتی ہیں۔ سکھر کے مضافات میں ایک پرائمری سکول ٹیچر کے ہاں جنم لینے والا بچہ جس نے اپنی ذہانت سے نہ صرف سکھر ڈویژن میں اپنی ذہانت کے پنجے گاڑے بلکہ پاکستان میں کمپیوٹر سائنس میں اعلیٰ ترین ڈگری کے بعد فلبراہٹ فیلو شپ لے کر فلوریڈا یونیورسٹی سے ورچوئل یونیورسٹی جیسے پیچیدہ اور مشکل موضوع میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی ،آج وہ پاکستانی سپوت دنیا کے ماہر ترین ڈیٹا سائنٹسٹ میں شمار ہوتا ہے جس سے امریکہ, پاکستان, سری لنکا اور دنیا کی کئی بڑی حکومتوں سمیت ملٹی نیشنل کمپنیاں استفادہ کر رہی ہیں، یہ غیر معمولی ذہین ڈیٹا سائنٹسٹ ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی ہے۔
یہ ہمارے ملک میں کامیاب ہونے والے چند لوگوں کی مثالیں ہیں، اگر اِن تمام کامیاب ہونے والوں کے متعلق تفصیلی لکھوں تو کئی کتابیں بھر جائیں, پاکستان میں حقیقی کامیابی کے مواقع بہت زیادہ ہیں کیونکہ یہاں مقابلہ بہت آسان ہے، زیادہ تر لوگ شعوری کامیابی سے نا بلد ہیں اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد با ایمان ہے ،اس لئے یہاں زیادہ آسانی کے ساتھ ترقی حاصل کی جا سکتی ہے، کوئی بھی امانت دار ڈاکٹر, ٹیچر, بزنس مین, ملازم اور سیاست داں بہت تیزی کے ساتھ لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن سکتا ہے, اس لئے ہمیں بس یہ یقین اپنے اندر پختہ کرنا ہے اور دل جوئی کے ساتھ محنت کرنی ہے کیونکہ پاکستان میں بھی کامیاب ہوا جا سکتا ہے.
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔