قربانی اہم مالی عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے۔اسی لئے اس عمل کو بڑی فضیلت اور اہمیت حاصل ہے،بارگاہ الہی میں قربانی پیش کرنے کا سلسلہ سیدنا آدم علیہ السلام سے ہی چلا آ رہا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے سورت المائدہ میں سیدنا آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل و قابیل کا قصہ ذکر فرمایا ہے کہ دونوں نے اللہ تعالی کے حضور قربانی پیش کی ،ہابیل نے عمدہ دنبہ قربان کیا اور قابیل نے کچھ زرعی پیداوار یعنی غلہ پیش کیا ۔اس وقت قربانی قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے ایک آگ آ کر قربانی کو کھا لیتی، چنانچہ ہابیل کی قربانی کو آگ نے کھا کیا اور قابیل کی قربانی وہیں پڑھی رہ گئی،یوں وہ قبولیت سے محروم ہو گئی۔
قربانی کا عمل ہر امت میں مقرر کیا گیا چنانچہ سورت الحج آیت نمبر 34 میں ارشاد ربانی ہوتا ہے کہ (ترجمہ !) اور ہم نے ہر اُمت کیلئے قربانی اس غرض کیلئے مقرر کی ہے کہ وہ مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے اُنہیں عطا فرمائے ہیں۔۔۔۔
البتہ اس کے طریقے اور صورت میں کچھ فرق ضرور رہا ہے۔انہی میں سے قربانی کی ایک عظیم الشان صورت وہ ہے جو اللہ تعالی نے امت محمدیہ ﷺ کو عیدالاضحٰی کی قربانی کی صورت میں عطا فرمائی ہے کو کہ حضرت سیدنا ابراھیم علیہ السلام کی قربانی کی یادگار ہے ۔
1-قربانی اسلامی شعائر ہے۔
قرآن مجید کی روح سے قربانی اسلامی شعائر یعنی نشانیوں میں سے ہے،جس کے ذریعے اسلام کی شان و شوکت نمایاں ہوتی ہے۔چنانچہ اللہ تعالی سورت حج آیت نمبر 32,36,37 میں ارشاد فرماتے ہیں ترجمہ! یہ ساری باتیں یاد رکھو،اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے،تو یہ بات دلوں کے تقوی سے حاصل ہوتی ہے۔اور قربانی کے اونٹ اور گائے کو ہم نے تمہارے لئے اللہ کے شعائر میں شامل کیا ہے، تمہارے لئے ان میں بھلائی ہے چنانچہ جب وہ ایک قطار میں کھڑے ہوں،اُن پر اللہ کا نام لو،پھر جب(ذبح ہو کر ) اُن کے پہلو زمین پر گر جائیں تو ان ( کے گوشت ) میں سے خود بھی کھاؤ،اور ان محتاجوں کو بھی کھلاؤ جو صبر سے بیٹھے ہوں،اور ان کو بھی جو اپنی حاجت ظاہر کریں۔۔۔اور ان جانوروں کو ہم نے اسی طرح تابع بنا دیا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو۔اللہ کو نہ انکا گوشت پہنچتا ہے نہ انکا خون،لیکن اس کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے،اُسی نے یہ جانور اسی طرح تمہارے تابع بنا دئیے ہیں تاکہ تم اس پر اللہ کی تکبیر کرو کہ اُس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی،اور جو لوگ خوش اسلوب سے نیک عمل کرتے ہیں اُنہیں خوشخبری سُنا دو۔۔۔۔۔
شعائر کے معنی ہیں: وہ علامتیں جن کو دیکھ کر کوئی دوسری چیز یاد آئے۔اللہ تعالی نے جو عبادتیں واجب قرار دی ہیں،اور خاص طور پر جن مقامات پر حج کی عبادت مقرر فرمائی ہے،وہ سب اللہ تعالی کے شعائر میں داخل ہیں،اور انکی تعظیم ایمان کا تقاضا ہے
(آسان ترجمہ قرآن ) مذکورہ بالا آیات سے قربانی کے عمل کی فضیلت و اہمیت خوب معلوم ہو جاتی ہے۔
2-قربانی کرنا حکم ربانی ہے۔
زمانہ جاہلیت میں بھی قربانی کو عبادت سمجھا جاتا تھا مگر جانوروں کو بتوں کے نام پر قربان کرتے تھے، اسی طرح آج تک دوسرے مذاہب میں قربانی مذہبی رسم کے طور پر ادا کی جاتی ہے،مشرکین بتوں کے نام پر اور عیسائی سیدنا عیسٰی علیہ السلام کے نام پر قربانی آج بھی کرتے ہیں۔اللہ تعالی نے سورت کوثر میں حضور نبی کریم ﷺ کو حکم فرمایا کہ اپنے رب کیلئے نماز پڑھیئے اور قربانی کیجیئے ۔یعنی نماز اور قربانی کا عمل اللہ تعالی کی رضا وخوشنودی کیلئے ہے اسی مفہوم کو اللہ تعالی نے سورت انعام میں فرمایا ترجمہ!( کہ آپ ﷺکہہ دیجیئے!)بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اس اللہ کیلئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔
3-حضور نبی کریم ﷺکے عمل سے قربانی کی اہمیت۔
حضرت عبداللہ ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ دس سال مدینہ میں مقیم رہے اور ہر سال قربانی فرماتے تھے۔ (سنن ترمذی )
حضور نبی کریم ﷺ کا ہر سال قربانی کرنا قربانی کی اہمیت ، فضیلت اور تاکید کیلئے کافی ہے۔۔
حضرت انس سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ سیاہ اور سفید رنگت والے اور بڑے سینگوں والے دو مینڈھوں کی قربانی فرما کرتے تھے،اور اپنے پاؤں کو انکی گردن کے پاس رکھ لیا کرتے تھے اور اپنے دستِ مبارک سے ذبح فرماتے تھے۔ (صحیح بخاری )
اس حدیث مبارکہ سے جہاں قربانی کی فضیلت و اہمیت واضح ہوتی ہے وہاں پر یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ قربانی کا جانور خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے۔۔۔۔قربانی کے عمل کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر ایک وقت میں سو اونٹوں کی قربانی فرمائی،ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے خود اپنے دستِ اقدس سے سو میں تریسٹھ اونٹوں کو ذبح فرمایا،جبکہ باقی کیلئے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الْکریم کو ذبح کرنے کا حکم فرمایا۔(صحیح بخاری)۔
4-حضور اقدس ﷺ کا اپنی امت کیطرف سے قربانی کرنا۔۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو بڑے موٹے تازے سینگوں والے سیاہ و سفید رنگت والے دو خصی مینڈے خریدتے،اُن میں سے ایک اپنے اُن امتیوں کیطرف سے قربان کرتے جنھوں نے اللہ کی توحید اور آپ کی تبلیغ کی گواہی دی،اور دوسری اپنی اور اپنے اہل وعیال کیطرف سے قربان کرتے ۔(مسند احمد)
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے (دونوں دنبے) اپنے دست مبارک سے ذبح کیے اور یوں فرمایا کہ بسم اللہ،واللہ اکبر ،اے اللہ ! یہ قربانی میری جانب سے ہے اور میری امت کے ہر اس فرد کیطرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی۔(مسند احمد)
حضرت سیدنا حسن مجتبٰیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے دلی خوشی کیساتھ اجروثواب کی امید رکھتے ہوئے قربانی کی تو وہ قربانی اُس کیلئے دوزخ سے آڑ بن جائے گی (معجم کبیر للطبرانی)
5-استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر وعید۔
حضرت سیدنا ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس وسعت ہو اور وہ اس کے باوجود بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ (سنن ابن ماجہ )
جو لوگ مالی وسعت یعنی قربانی کی استطاعت رکھتے ہوئے بھی قربانی ادا نہیں کرتے وہ آنکھیں کھولیں!اور اپنے ایمان کی خیر منائیں،اوّل یہی خسارہ کیا کم تھا کہ قربانی نہ کرنے سے اتنے بڑے ثواب سے محروم ہو گئے،پھر اس سے بڑھ کر صاحب رؤف رحیم مجسم رحمت پیکر شفقت حضور نبی کریم ﷺ ناراض ہو جائیں اور عیدگاہ میں حاضری سے روک دیں تو سوچیئے!ایسے شخص کا کہاں ٹھکانہ ہو گا۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
عیدگاہیں اور مساجد اللہ تعالی کی محبوب جگہیں ہیں،جہاں جمع ہونے والوں پر بارگاہ الہی سے عفو و کرم کی بارش ہوتی ہے ، یہاں کی حاضری سے بدنصیب سے بدنصیب ہی کو روکا جا سکتا ہے، اسلئے بخل سے کام نہ لیجیئے،جسکا یہ مال دیا ہوا ہے قربانی کا حکم بھی اسی کا ہے۔لہذا سلامتی کے حصول کیلئے حکم ربی کی تعمیل کیجیئے۔
6-قربانی والے دن قربانی سے بڑھ کر محبوب عمل کوئی نہیں۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قربانی والے دن اللہ تعالی کے نزدیک آدمی کا کوئی بھی عمل قربانی کا خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں، قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں،سینگوں اور کُھروں کو لے کر آئے گا،اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے سے اللہ تعالی کے ہاں قبولیت کے مقام کو پا لیتا ہے،اس لئے تم خوشی خوشی قربانی کیا کرو۔ (سنن ترمذی)
روز قیامت قربانی کے جانور کے بالوں،سینگوں اور کُھروں کو لانے کا مقصد اجروثواب میں اضافہ ہے،جیسا کہ “مسند عبدالرزاق” میں ہے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قربانی کیا کرو اور خوش دلی سے کیا کرو کیوں کہ جب مسلمان اپنی قربانی کا رُخ قبلے کی طرف کرتا ہے تو اس کا خون،گوبر اور اُون قیامت کے دن میزان میں نیکیوں کی صورت میں حاضر کیے جائیں گے ۔
حضرت زید بن ارقمؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! یہ قربانی کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا یہ تمہارے باپ حضرت سیدنا ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے۔انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے ؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا (تمہارا فائدہ یہ ہے کہ تمہارے قربانی کے جانور کے)ہر بال کےبدلےمیں ایک نیکی ملے گی ۔ صحابہؓ نے پھر عرض کیا یارسول اللہﷺ !(جن جانوروں کے بدن پر اُون ہے اُس) اُون کا کیا حکم ہے ؟(کیا اس پر بھی کچھ ملے گا؟) آپﷺ نے ارشاد فرمایا :اُون کے ہر بال کے عوض میں بھی نیکی ملے گی (الترغیب والترھیب )
حضرت سیدنا علی المرتضیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے لوگو ! تم قربانی کرو،اور ان قربانیوں کے خون پر اجروثواب کی امید رکھو،اس لئے کہ (ان کا ) خون اگرچہ زمین پر گرتا ہے لیکن وہ اللہ تعالی کی حفظ وامان میم چلا جاتا ہے (الترغیب والترہیب )
غور کیجیئے اس سے بڑھ کر اور کیا ثواب ہو گا کہ ایک قربانی کرنے سے ہزاروں لاکھوں نیکیاں مل جائیں۔دنبے اور بھیڑ کے بدن پر کتنے لاتعداد بال ہوتے ہیں اگر کوئی صبح سے شام تک گننا چاہے تو بھی نہ گن سکے تو سوچیئے!ہمارے پندرہ بیس ہزار کے مقابلے میں کتنی بے حساب نیکیاں ہوئیں اس قدر اجروثواب کو دیکھ کر خوب بڑھ چڑھ کر قربانی کرنی چاہیئے۔واجب تو واجب ہے ہی اگر وسعت ہو تو نفلی قربانی بھی کرنی چاہیئے۔یعنی اگر اللہ جل شانہُ نے مالی فراخی عطا فرمائی ہے تو تو جہاں اپنی طرف سے قربانی کریں وہاں اپنے مرحوم والدین بہن بھائیوں کے ایصال ثواب کیلئے بھی قربانی کریں اور کیا ہی اچھا ہو کہ محسن اعظم،نور مجسم،رحمت عالم ﷺ کی جانب سے اور آپ ﷺ کے اصحابؓ و اہلبیتؓ کی طرف سے بھی قربانی کیجیئے ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ صاحب استطاعت حضرات کو قربانی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور اس عملِ خیر کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائیں۔
آمین یا رب العالمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔