ترکی میں تین روزہ “کلنا مریم”کانفرنس کی روداد.

سفرنگار
ساجدہ پروین
ایڈیٹر
اسلامی صفحہ
اردو فلک ڈاٹ نیٹ

کانفرنس سے واپس اوسلو ائرپورٹ پرجونہی لینڈ کیا تو شازیہ کہنے لگی ” مجھے تو ابھی سے اداسی محسوس ہو رہی ہے” . دینی جدوجہد کےلیےواقعی کانفرنس نےجذبوں سے سرشار تو کیا ہی ہے.
تاہم کانفرنس کی محبتوں بھری فضا نے امت مسلمہ کا فرد ہونے کا ایک گہرا احساس بیدار کیاہے. زندگی میں دوسری مرتبہ پاکستانی ہونے سے زیادہ مسلم ہونے کا شعور بیدار ہواہے. اپنی سوچ کی تنہائیوں سے باہر (محدود سوچ) اپنی شناخت کو بڑے کینوس پر دیکھنے کا موقع ملا.گرچہ شرکاء کانفرنس کی بولیاں مختلف تھی لیکن محبت اظہار کے لئے الفاظ کی محتاج نہیں ہوتی. سلام کی گرمجوشی ایک خوبصورت پیمانہ تھا. اسلام جب دل میں داخل ہوتا ہے تو دنیا کے مختلف گوشوں میں بسنے والے انسانوں میں اتنی خوبصورتی سے یکجہتی اور یک رنگی پیدا کرتا ہے.دل میں ایمانی حلاوت کیساتھ آپس کے تعلق میں بھی مٹھاس بھر جاتی ہے. کسی نے سچ کہا ہے کہ “اسلام سروں کو جمع نہیں کرتا بلکہ دلوں کو جمع کرتا ہے”


ترکی میں تین روزہ “کلنا مریم” (ہم سب مریم ہیں) کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا. یہ کانفرنس ترکی ،قطر اور کویت حکومتوں کی سرپرستی میں ترکی کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں اکتوبر میں منعقد ہوئی. اس سالانہ کانفرنس میں مختلف اسلامی ممالک سے خواتین کے وفود شریک ہوئے.جن میں بڑی تعداد نوجوان بچیوں کی تھی.
اس سالانہ مرکزی کانفرنس کا مقصد، فلسطین پر قابض طاقت کافلسطینی خواتین پر ظلم و جبر سے دنیا کو آگاہ کرنا اور ایک فلسطینی خاندان پر بیتنے والے مصائب و الم سے آگاہ کرنا تھا. فلسطین سے کانفرنس میں شریک خواتین نے کی آپنی آپ بیتی بیان کر کے شرکاء کو آب دیدہ کر تی رہیں. وہ معرکہ جو مسجد اقصٰی میں نماز کے لئے ہر روز نہتے فلسطینی مرد و عورتیں لڑتے ہیں اسکی وڈیوز کے روح پرور مناظر دیکھ کر ان آزادی کے متوالوں کو دل سے سلام پیش کیا جو پوری امت مسلمہ کا قرض اور فرض اپنے لہو سے چکا رہے ہیں.

کانفرنس عزت ماب خاتون اول محترمہ بیگم طیب اردگان کی زیر صدارت ہوئی جو خود اپنے خطاب میں اسلامی ممالک میں ظلم کا شکار خواتین کا تذکرہ کر کے آبدیدہ ہو گی. ایسے موقع پر میرا دل رب سے مخاطب ہو جاتا کہ یارب! تمام اسلامی ممالک کو ایسے لیڈر عطا فرما جو انکے دکھ سکھ کے ترجمان ہوں.” پروگرام کے دو روزہ بھر پور شیڈول میں مختلف ممالک میں رجسٹر “کلنامریم” کی رہنماؤں نے خطاب کیا جن میں سے ایک مقررہ امت کےہمدرد اور خیرخواہ عظیم لیڈر محترم قاضی حسین احمد(مرحوم) کی بیٹی محترمہ راحیل قاضی صاحبہ بھی تھیں جو پاکستان سے ایک خصوصی وفد کے ساتھ شریک ہوئی تھی. انہی کی دعوت اور کوششوں سے کانفرنس میں ناروے، سویڈن، ڈنمارک سے ہم نے شرکت کی.


پروگرام میں دوران وقفہ ان ممالک سے آئی بہنوں سے سلام دعا اور تعارف کا موقع ملتا. پاکستان ایک حوالہ ضرور تھا لیکن ہماری شناخت اسلام تھی. نشست و برخاست میں ہم آہنگی، ظاہر و باطن میں ہم آہنگی، مقاصد میں ہم آہنگی،میرا ذہن ماضی کی یادوں میں اسلامی اجتماعیت کی اتنے بڑے پیمانے پر عملی شکل تلاش کرنے سے قاصر رہا.
حج میں امت مسلمہ ہونے کی جھلک ضرور نظر آتی ہے تاہم حرم سے باہر نکلتے ہی مسلمان واپس اپنے اپنے گروہ اور ملک و ملت کی ترجیحات اور رسم و رواج کی دنیا میں گم ہو جاتےہیں.اگرچہ یورپ میں مختلف ممالک سے آکر آباد مسلمان اکٹھی نمازیں پڑھتے ہیں لیکن آپس میں میل جول اور گھریلو تعلقات شاذ ہی بناتے ہیں مساجد الگ، اجتماعات الگ،خوشی غمی کی تقریبات الگ، ائمہ اکرام امت کا تصور عملی صورت میں پیش کرنا تو درکنار، ذہنوں میں اجاگر کرنے میں بھی ناکام ہیں. کانفرنس میں شرکت سے دل میں خواہش پیدا ہوئی کاش یہاں کی مساجد، سال میں ایک دو موقع پر ہی سہی مسلمانوں کو اکٹھا کرکے کچھ ڈیلیور کریں ایک دوسرے ممالک کے علماء سے استفادہ کریں خود بھی ذہنی تنہائیوں(محدود سوچ) سے نکلیں اور اپنی نسلوں کو بھی نکالیں. کانفرنس میں تقاریر کا ترجمہ پانچ زبانوں میں سنا جا سکتا تھا. دوران کانفرنس محبت و اتحاد کے مناظر دیکھ کئ بار آنکھیں اشکبار ہوئیں. ایک خاتون غالباً قازقستان سے تھی ہماری ںساتھ والی نشست پر بیٹھی تھیں مسکراہٹوں کے تبادلے کے بعد ہمارے قریب آکر عربی میں بولی”احبک فی اللہ”میں تم سے اللہ کی خاطر محبت کرتی ہوں.

. اگرچہ وقت خاموشی سے ایک نئ کروٹ لے رہا ہے. پردے آٹھ رہے ہیں رسم کی بیڑیوں سے آزاد نئ دنیا وجود میں آرہی ہے.کانفرنس میں سرگرم یوتھ گویا ٹریفک سگنل کی پیلی بتی کی مانند معلوم ہو رہی تھیں. ناقدین دین، اس نسل پر ضرور دم بخود ہوں گے جو رنگیں فضاؤں میں جھومنے کی بجائے رکوع و سجود میں مشغول ہیں.

کانفرنس نے مجھے کیا دیا؟ مجھے کانفرنس نے یورپ میں یوتھ کو سرگرم کرنے کا نیا زوایہ دیا. اگرلفظ”جہاد” سنسر ہوتا ہے تو معاشرتی ناہمواری، ناانصافی ، ظلم و جبر کے خلاف جدو جہد پر ابھارنے والا دوسرا عنوان “معروف و منکر ہے وہ نسل جس کو جہاد کی داستانیں نہیں سنائی جا سکی.وہ نسل جو اپنی جدوجہد کےلئے اسلامی حوالہ چاہتی ہے.” نیکی کوپھیلانا”اپنی ویلیوز کو دلفریب طریقہ سے پیش کرنا اور صورت ان پر کاربند ہونا. ” برائی کو روکنا”دستیاب تمام وسائل کو بروئے کار لاکر ہاتھ،قانون اورزبان سے، انسانیت کے لئے اٹھ کھڑے ہونا دین میں اعلی درجے کا عمل تو ہے ہی. انسانی حقوقِ کی علمبرداری کی تمام سیاسی اصطلاحات کا عنوان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہی تو ہے.جیسے جیسے کانفرنس کے پروگرام آگے بڑھ رہے تھے اتنا دل چاہ رہا تھا کہ کاش اس موضوع پر احادیث کے حوالوں کیساتھ ایک جامع لیکچر ہو جاتا تاکہ شرکاء واپس جاکر دلجمعی کیساتھ اس کاز پر کام کر سکیں.
“القدس ” مسلمانوں کا قبلہ اول، ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کاایسا عنوان بن سکتا ہےجو نہ صرف امت مسلمہ کو بیدار اور ااتحادو یگانگت سے ہم کنار کر سکتا ہے. بلکہ یورپ کے پیشتر ممالک القدس پر مسلمانوں کے موقف کی تائید کرتے ہیں. الجزیرہ نیوز چینل کے صحافی نے کانفرس میں میڈیا ورکشاپ کے ذریعے اس حساس عالمی مسئلہ کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لئے حکیمانہ طریقہ سے اصتلاحات کااستعمال، خبروں کی صداقت کو پرکھنے کی ٹیکنک، اور اپنے موقف کو بیان کرنے کے انداز بھی سکھائے. جس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ ک
اکابرین تنظیم اپنے ہدف کی حساسیت سے بھی اگاہ اور اپنے موقف کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لئے تمام ذرائع استعمال کرنے کے لئےپرعزم ہیں.
دوران پروگرام مقررین کساتھ مل کر “جلد القدس میں ملیں گے، جلد امن سکون کیساتھ القصی میں نماز ادا کریں گے”کے پر جوش نعروں اور عہد کا اظہار کیا.وقت رخصت دل کہہ رہا تھا

تو صبح نو کی نوید بن
گرچہ قطرہ آب تیری چونچ میں ہے

تحریر :ساجدہ یاسمین، اوسلو،ناروے

اپنا تبصرہ لکھیں