“الفاظ کی طاقت۔۔۔۔۔”
انسان حیوان ناطق ہے، زیادہ دیر خاموش نہیں رہ سکتا، گفتگو کرنا اس کی سرشت میں شامل ہے۔ اس کی زبان جب حرکت میں آتی ہے تو اچھا برا سب کہہ دیتی ہے۔۔ انسان کے ادا کیے گئے الفاظ عجب طاقت غضب تاثیر رکھتے ہیں؛
یہ زہر بھی ہیں، تریاق بھی ہیں، گھاؤ بھی کرتے ہیں، مرہم بھی رکھتے ہیں، یہ کاٹ بھی لیتے ہیں، درد بانٹ بھی لیتے ہیں، دل توڑ بھی دیتے ہیں، جوڑ بھی دیتے ہیں، مروا بھی دیتے ہیں، بچا بھی لیتے ہیں۔۔
یہی جملے انسان کو اوج ثریا پر بھی لے جاتے ہیں اور پستی کی دلدل میں بھی دھنساتے ہیں۔۔
آپ اندازہ لگائیے کہ:
پاوری ہو ری ہے،
مارو مجھے مارو،
پیچھے تو دیکھو،
یہ تو ہو گا،
اور بھی کئی جملے ہیں جن کو ادا کرنے والوں نے راتوں رات شہرتیں سمیٹیں۔ بیسیوں مثالیں ایسی بھی مل جائیں گی کہ الفاظ کے چناؤ میں بے احتیاطی کے باعث اچھے اچھوں کو شرمندگی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔۔
ایسے میں شعور کا تقاضہ ہے کہ گفتگو میں حد درجہ احتیاط کی جائے کیونکہ محض دنیا ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی بشر اپنے الفاظ کی بدولت جنت کا حقدار ٹھہرے گا اور انہی کے سبب جہنم کا ایندھن بنے گا۔ حدیث مبارکہ ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’انسان اللّٰہ تعالیٰ کی خوشنودی والا کوئی جملہ ادا کرتا ہے، جو اس کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا مگر اس کی وجہ سے اللّٰہ اس کے درجات بلند فرما دیتا ہے، اور کوئی بندہ بنا پرواہ اللَٰہ تعالیٰ کو ناراض کر دینے والی کوئی بات کہہ دیتا ہے اور اسی وجہ سے جہنم میں جا گرتا ہے۔‘‘ (رواہ البخاری)
بقول #رانجھو:
الفاظ ترے تیری پہچان بنائیں گے
چہرے کو سجانے سے کردار نہیں بنتے