ڈاکٹرشہلا گوندل
ریسٹ ہاؤس میں واپس پہنچ کر ہم لوگ اپنے کمروں میں چلے گۓ۔ نماز ادا کی ،تھوڑی دیر آرام کیا اور گھر بات کی-اوپر کامن روم میں ہلکے پھلکے سنیکس موجود تھے کھانے میں لیکن ہم لوگ تو پہلے ہی کباب رول کھا چکے تھے اس لیے کوئی خاص بھوک نہیں تھی البتہ شام کو بار بی کیو کی تیاریاں مکمل تھیں۔ مرغی کو مصالحہ جات لگ چکے تھے اور سبزیوں میں پیاز،ٹماٹراور کھیرے کے علاوہ لال،ہری،پیلی اور نارنجی شملہ مرچ بھی شامل تھی۔ اس لحاظ سے مجھے ناروے بہت پسند ہے کہ یہاں انواع و اقسام کی سبزیاں اور سلاد ہر موسم میں بآسانی دستیاب ہوتے ہیں۔ ہم نے کامن روم کی سرگرمیوں پر اک سرسری نگاہ ڈالی اور واپس کمرے میں آگۓ۔
رضوانہ کا خیال تھا کہ ہم لوگ گرد و نواح کا چکر لگا کر آئیں۔ میں نے تائید کی اور عابدہ نے بھی جانے کی ہامی بھر لی۔ ہم نے گرم جیکٹیں اور جوتے پہنے اور ریسٹ ہاؤس کے عقبی دروازے سے باہر نکل گۓ۔ وسیع لان کے بعد دائیں جانب ایک خوبصورت جھیل تھی جس کے کنارے پر بار بی کیو کے لیے ایک مخروطی شکل کا لکڑی سے بنا ہوا چمنی والا کمرہ بھی بنا ہوا تھا ۔ جیسے ہی ہم لوگ اس کمرے کے پاس پہنچے ہمیں وہاں پر ایک بندہ نظر آیا جو ہمیں دیکھ کر تھوڑا پرے چلا گیا- اسکی عمر کم ازکم ستر سال ہوگی لیکن اتنی سخت سردی میں بھی وہ صرف ایک نیکر میں ملبوس تھا۔ ہم تینوں گرم کپڑوں میں بھی ہوا کی خنکی محسوس کر سکتی تھیں اور وہ نارویجین بابا بغیر کپڑوں کے بڑے آرام سے پھر رہا تھا۔ ہم بابے کی ہمت کو داد دیتے ہوۓ جی کھول کے ہنس رہے تھے۔ لکڑی کابنا ہوا ایک پلیٹ فارم تھا جو جھیل کے اندر تک چلا گیا تھا۔ اس طرح کے پلیٹ فارم ناروے میں تقریبا ہر جھیل کے کنارے دیکھنے کو ملیں گے۔ہم تینوں خواتین ہنستے ہوۓ اس پلیٹ فارم پر چلی گئیں اور رضوانہ نے بچوں کی طرح اچھل کے اسے زورزور سے ہلایا۔ میں جو پانی کی طرف دیکھ رہی تھی مجھے ایکدم سے چکر آگیا اور یوں لگا کہ جیسے پلیٹ فارم اپنی بنیاد کو چھوڑ کے جھیل کے اندر تیر نے لگا ہے۔ پیچھے مڑ کے دیکھا تو سب کچھ ویسے ہی تھا صرف رضوانہ ہنستے ہوۓ اچھل رہی تھی۔ چکر شدید تھا اس لیےمیں پیچھے ہٹ کے زمین پر بیٹھ گئی۔ رضوانہ اور عابدہ اس پہ کھڑے ہو کے ہنس رہی تھیں۔ ہم نے دیکھا کہ نیم برہنہ بابا جی اپنی کشتی میں سے پانی نکال رہے تھے۔ اچھا تو یہ وجہ تھی انکی نیم برہنگی کی۔ ایک اور قہقہہ اس بات پہ۔ گھر سے باہر نکلنے کا اثر تھا، موسم کی خنکی تھی’ منظر کی خوبصوررتی تھی یاصحبت کا اثر، ہم لوگ بات بے بات بچوں کی طرح ہنس رہے تھے۔
ہم نےپلیٹ فارم، نیم برہنہ بابا جی اور انکی کشتی کو خیرباد کہا اور بائیں طرف سے آنے والے چشمے کی طرف چل نکلے۔ جھیل میں گرنے سے پہلے مستوی سطح پہ آکر وہ چشمہ بالکل میرے گاؤں کے “کھالے” جیسا لگ رہا تھا۔ لکڑی کی بنی ہوئی ایک چھوٹی سی پلی پر سے گزرتے ہوئے مجھے ایک لمحے کے لیے یوں لگا جیسے میں اپنے گاؤں میں ہوں جہاں “کھالا” نہ”ٹپنے” یعنی کہ پھلانگنے کی صورت میں مجھے “شہرن شہرن” کہہ کے میری ماموں زاد بہنیں میرا مذاق اڑا رہی ہیں- جبکہ شہری لوگ مجھے “پینڈو” ہونے کا طعنہ دیتےرہتے ہیں-
لیکن اس دن ہم کچھ بھی نہیں تھے صرف تین اآزاد روحیں جو سارے جھنجٹ بھلا کے چھوٹے چھوٹے بچوں کی طرح ایک ایک لمحے کو کھل کے جی رہی تھیں۔ بات بے بات ہنس رہی تھیں ہم تینوں۔ چلتےچلتے ہم ایسی جگہ پہنچے جہاں پر چشمے کا پانی تھوڑی اونچائی سے نیچے گر رہا تھا۔ جھرنے کی مخصوص آواز ہماری سماعتوں میں موسیقی بکھیر رہی تھی۔ رضوانہ نے کہا کہ میں آپ لوگوں کے ساتھ دماغی سکون پہنچانے والاایک تنویمی عمل کروں؟ میں نے اور عابدہ نے یک زبان ہو کر کہا ضرورکیجیے۔ اب ہم تینوں آنکھیں بند کر کےپتھروں پر بیٹھےتھے۔ ہمارے کانوں میں جھرنےکی موسیقی کے ساتھ ساتھ رضوانہ کی خوابیدہ سی آواز بھی آ رہی تھی۔اس کی ہدایات کےمطابق، سانس کی مشقوں کے بعد ہم نےپاؤں سے لے کر سر تک اپنے جسم کے ایک ایک حصے کو محسوس کیا اور اس کے لیے خالق کائنات کا شکر ادا کیا۔ رضوانہ نے اپنی آواز کے ساتھ ایسا جادو کیا کہ ہم لوگ انتہائی پر سکون ہو گۓ۔ آنکھیں کھولیں تو پھر ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔ اس کو گرو جی کا خطاب دیا اورزندگی خوش خوش گزارنے کے گر پوچھے۔ گر ایک ہی تھا کہ سختئی ایام کو ہنس کے ٹال دیا جاۓ۔
اسکے بعد ہم نے اس جنگل کو پار کیا اوربڑی سڑک پر پہنچ گئے۔ وہاں سے ایک چھوٹی سڑک اوپر کی طرف جا رہی تھی۔ بورڈ پہ بنےنشان سے ظاہر تھا کہ ادھر قریب ہی چرچ تھا۔ ہمارے دل میں آیا کہ چلو چرچ ہی دیکھ لیتے ہیں لیکن وہ کتنی دور ہے اسکا بورڈ ابھی نظر نہیں آیا تھا۔ ایک قریبی گھر سےایک گاڑی نکلی جس میں ایک آدمی اور ایک بچی بیٹھے تھے۔ رضوانہ نے نوشک میں ان سے پوچھا کہ چرچ کدھر ہےاور کتنی دور ہے- انہوں نے بتایا کہ تھوڑا آگے جا کر بائیں مڑ جائیں تو وہاں سے تین کلو میٹر دور ہے۔ اگر رضوانہ کا بس چلتا تو ہمیں چرچ دکھا کر ہی چھوڑتی لیکن میں نے اور عابدہ نے اتنا چلنے سے صاف انکار کر دیا۔ گرو جی کچھ مایوس ہوۓ لیکن سڑک کے کنارے اگی ہوئی کھمبیاں دیکھ کر وہ خوش ہو گۓ۔چلتے ہوۓ ہم اس سڑک پہ پہنچے جہاں پرچرچ تین کلو میٹر کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ ہم اس سڑک کی طرف مڑ گۓ اور کھمبیاں تلاش کرتے رہے۔ تھوڑا آگے جاکے میں نے کہا کہ واپسی کا سفر اختیار کرنا چاہیے۔گرو جی مان تو گۓ لیکن سڑک سے واپس جانے کی بجاۓ درمیانی جنگل کا راستہ اختیار کیا۔ راستے میں مختلف قسم کی بیریاں اور کھمبیاں توڑیں اور ہر نظر آنے والی جڑی بوٹی کی افادیت پر روشنی ڈالی گئی۔ شکر ہے کہ گم نہیں ہوۓ اور ہمیں وہ بڑی سڑک نظر آگئی جس پر ہمارا ریسٹ ہاؤس تھا۔ اب ہم اس گھر کے عقب میں تھے جس کے مکینوں سے ہم نے چرچ کا پتہ پوچھا تھا۔ ادھر سے گزر کے ہم ایک اور گھر کے سامنے پہنچ گۓ جہاں ایک چھوٹے سے پودے پر سرخ رنگ کے سیب لگے ہوۓ تھے۔ عابدہ کو نجانے کیا سوجھی کے جاکر اس گھر کی گھنٹی بجا دی۔ تھوڑی دیربعد بالکونی میں ایک آدمی نمودار ہوا۔ عابدہ نے نوشک میں اس سے پوچھا کہ کیا ہم آپ کے پودے سے ایک سیب توڑ لیں۔ اس نے انکار میں جواب دیتے ہوۓ کہا کہ نہیں اور بتایا کہ ان کے بوٹے پر پہلی بار پھل آیاتھا۔ کل چار سیب لگے تھے جن میں سے ایک انہوں نے توڑ لیا تھا اور باقی تین کا وہ کرسمس پہ ایپل کیک بنائیں گے۔ ہم لوگ ان کی اپنے بوٹے سے محبت پر بہت متاثر ہوۓ۔ تھوڑی بے عزتی بھی محسوس ہوئی لیکن ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو گۓ۔
سڑک پار کرکے ہمارا ریسٹ ہاؤس تھا۔ ہم لوگ عقبی دروازے سے گۓ تھے لیکن گھوم کر سامنے پہنچ گۓ تھے۔ لان میں جا کر درخت کو قریب سے دیکھا تو وہ سیبوں سے لدا ہواتھا بلکہ اس کے اردگرد زمین پر بے شمار سیب گرے ہوۓ تھے۔ ایک بار پھر ہم لوگوں پر ہنسی کا دورہ پڑ چکا تھا کہ اپنے کمرے کے سامنے سیبوں کا انبار دیکھنے کی بجاۓ ہم اس نارویجین کے تین سیبوں پر نظر رکھے ہوۓ تھے۔ ہم نے درخت سے کچھ سیب توڑ کے کھاۓ۔ ہمیں دیکھ کر شاہ رخ بھائی اور شفق بھی ادھر آ گۓ اور شاہ رخ بھائی نے درخت سے سیب توڑنے میں ہماری مدد بھی کی۔یہاں یہ بتاتی چلوں کہ ویسے تو یہ خواتین کا ٹرپ تھا لیکن دولوگ فیملی کے ساتھ تھے۔ ایک شفق اور شارخ بھائی اوردوسرے زینپ اور سیگرجو نارویجین ہیں۔
شام ہونے کو تھی لہذا بار بی کیو کے لیے آگ جلائی گئی ایک بڑی سی انگھیٹی میں۔ شاہ رخ بھائی، سیگراور زینپ اس میں پیش پیش تھے۔ ان سب کو باہر چھوڑ کے میں واپس کمرے میں آگئی۔ عابدہ کا بیٹا بنیامین بدستور اپنی کتاب پڑھ رہا تھا۔ میں نے مغرب کی نماز ادا کی اور گھر بات کی۔ سارے دن کا احوال سنا اور سنایا۔خاوند نامدار نے گھر میں منعقدہ دوستوں کی محفل کی ویڈیوز بھیجی ہوئی تھیں- حمدیہ،نعتیہ،عارفانہ کلام اور غزلیں۔ میری غیر موجودگی میں وہ بھی کچھ کم خوش نہ تھے۔ پھر رضوانہ نے آکر بتایا کہ کھانا تیار ہے، سب لوگ کھا بھی چکے اور میں ادھر بیٹھی تھی۔ ہم دونوں اوپر کامن روم میں پہنچے تو ایک پر تکلف کھانا ہمارا منتظر تھا۔چاول ،بار بی کیو، سلاد، رائتہ۔۔۔ کچن میں کام کرنے والی ساری ٹیم کو سلام۔
رات کو ذہنی سکون کی مشق کے ساتھ ادبی محفل بھی تھی۔ میری ملاقات ان ہستیوں سے ہونے والی تھی جنہوں نے میری زندگی کو یکسر بدل دیا۔ کون،کب، کہاں اور کیسے۔۔۔۔ یہ جاننے کے لیے پڑھیے اگلی قسط ۔ جاری ہے۔۔۔۔۔۔