پہلے خود ہی، اپنے ہاتھوں سے مٹی کے حقیر انسانوں کے “بُت” بناتے ہو۔ پھر اُن سے اُمیدیں وابستہ کرتے ہو اور اُن کو پوجنا شروع کر دیتے ہو۔ پھر اس پرستش میں اتنا آگے بڑھ جاتے ہو کہ زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہو، فقط یہ ثابت کرنے میں، کہ تمہارا بت واقعی پوجے جانے کے قابل ہے۔ بیچ میں “انا” کود پڑتی ہے کہ “میرا” تراشا ہوا بت ہر قسم کی خطا سے مبراء ہے۔ ایک دوسرے سے بحث و تکرار اور لڑائی میں اپنی زندگی خرچ کرتے ہو صرف یہ بتانے اور دوسروں سے منوانے کیلئے کہ “میرا بت” چونکہ “میرا” ہے اسلئے اعلی’ ہے اور ہر غلطی سے پاک ہے۔
اپنے ہی تصور سے اس تراشیدہ بت پر اپنی من پسند خوبیاں، صلاحیتیں اور صفات، پلستر کی طرح ذبردستی “لیپ” کر دیتے ہو۔ بلکہ زبردستی “تھوپ” دیتے ہو۔ اس میں اس بیچارے بت کا کیا قصور ہے! نظر کا بھینگا پن تو دراصل تمہارے اندر موجود تھا اور ہے کہ تم نے اس میں وہ دیکھا، جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا اور نا ہے۔
اور پھر وقت گزرتا ہے تو تمہیں دکھائی دینا شروع ہوتا ہے کہ “روغن” اترنا شروع ہو گیا ہے۔ پلستر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔
تو پھر قصور کس کا ہے؟
تمہارا!
فقط تمہارا!
پھر جب امیدیں ٹوٹتی ہیں تو تم رونا دھونا شروع کر دیتے ہو۔ اوہ! دکھ محسوس ہوتا ہے کہ بت تو ٹوٹ گیا۔ یہ تو وہ تھا ہی نہیں جو تم نے تصور کیا تھا۔ اس میں تو غلطیاں ہی غلطیاں ہیں۔ یہ تو محض ایک انسان نکلا۔
کمزور انسان! خطاوار انسان!
تو قصور کس کا ہے؟
کیوں بت بناتے ہو؟
کیوں پلستر چڑھاتے ہو؟
کیوں روغن لگاتے ہو؟
اے کاش مسلمانو تم سمجھ جاؤ! بُت پرستی چھوڑ دو!