مرتبہ: ڈاکٹر شہلا گوندل
ماہ رمضان رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے اور اس ماہ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن پاک کا نزول اسی مہینے میں ہوا ۔ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرہ عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا ہے۔
جب رمضان المبارک کا چاند نظر آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ یہ چاند خیر و برکت کا ہے‘ یہ چاند خیر و برکت کا ہے، میں اس ذات پر ایمان رکھتا ہوں جس نے تجھے پیدا فرمایا۔
روزہ وہ عظیم عبادت ہے جس کو رب ذوالجلال نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے اور فرمایا کہ “روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا”۔ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لیے عبادات کے جتنے بھی طریقے بتائے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور پوشیدہ ہے۔ نمازاللہ کے وصال کا ذریعہ ہے۔ اس میں بندہ اپنے معبودِ حقیقی سے گفتگو کرتا ہے۔ بالکل ایسے ہی روزہ بھی اللہ تعالیٰ سے لَو لگانے کا ایک ذریعہ ہے۔
حدیث مبارک میں ہے کہ رمضان ﷲ تعالیٰ کا مہینہ ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس مبارک مہینے سے رب ذوالجلال کا خصوصی تعلق ہے جس کی وجہ سے یہ مبارک مہینہ دوسرے مہینوں سے ممتاز اور جدا ہے۔
حضرت جابر بن عبد ﷲ رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت کو ماہ رمضان میں پانچ تحفے ملے ہیں جو اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے۔ پہلا یہ ہے کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو ﷲ تعالیٰ ان کی طرف نظرِ التفات فرماتا ہے اور جس پر اُس کی نظرِ رحمت پڑجائے اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔ دوسرا یہ ہے کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو ﷲ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔ تیسرا یہ ہے کہ فرشتے ہر دن اور ہر رات ان کے لیے بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ چوتھا یہ ہے کہ ﷲ ل اپنی جنت کو حکم دیتاہے کہ میرے بندوں کے لیے تیاری کرلے اور مزین ہو جا، تاکہ وہ دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میرے دارِ رحمت میں پہنچ کر آرام حاصل کریں۔ پانچواں یہ ہے کہ جب (رمضان کی) آخری رات ہوتی ہے ان سب کو بخش دیا جاتا ہے۔ ایک صحابی نے عرض کیا: کیا یہ شبِ قدر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ جب مزدور اپنے کام سے فارغ ہو جاتے ہیں تو انہیں پوری پوری مزدوری دی جاتی ہے؟‘‘ اِس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ماہِ رمضان میں ﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا بخش دیا جاتا ہے اور اس ماہ میں ﷲ تعالیٰ سے مانگنے والے کو نامراد نہیں کیا جاتا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔
حضرت سہل بن سعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت میں ایک دروازہ ہے‘ جس کا نام ریان ہے۔ روز قیامت اس میں روزہ دار داخل ہوں گے‘ ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس میں سے داخل نہیں ہوگا۔
جنت میں انسانوں کے اعمال کے اعتبار سے کئی دروازے ہیں۔ پس جو شخص دنیا میںکوئی عمل کرے گا وہ جنت میں اس عمل کے دروازے داخل ہوگا۔
ریان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں محدث ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یا تو وہ بنفسہ ریان ہے‘ کیونکہ اس کی طرف کثیر نہریں جاری ہیں۔ اس کے قریب تازہ اور سرسبز و شاداب پھل پھول بکثرت ہیں۔ قیامت کے دن اس کے ذریعے سے لوگوں کی پیاس زائل ہوگی اور ترو تازگی و نظامت ہمیشہ رہے گی۔ اس لئے صرف رمضان کے روزے رکھنے والا ہی نہیں بلکہ کثریت سے نفلی روزے رکھے والا بھی اس کا مستحق ہوگا۔