ڈاکٹر ساجد رحیم
انتخاب: ڈاکٹر شہلا گوندل
یہ کب کہا عاشقی سے پاگل نہیں ہوا تھا
مگر میں آغاز ہی سے پاگل نہیں ہوا تھا
دکھوں سے لبریز ہو گئے تھے حواس خمسہ
وہ شخص اپنی خوشی سے پاگل نہیں ہوا تھا
تجھے بھی راس آ گئے تھے منظر نئی رتوں کے
یہ دل بھی تیری کمی سے پاگل نہیں ہوا تھا
تلاش کرتا تھا خود کشی کے نئے طریقے
خفا تھا وہ زندگی سے،پاگل نہیں ہوا تھا
جنوں کے آثار صاف ظاہر تھے بچپنے سے
یہ دل کسی دل لگی سے پاگل نہیں ہوا تھا
تمہارے دکھ نے کسر تو چھوڑی نہیں تھی کوئی
مگر میں بدقسمتی سے پاگل نہیں ہوا تھا
خدا کے اسرار منکشف ہو گئے تھے اس پر
کوئی اچانک ولی سے پاگل نہیں ہوا تھا
دکھی ہوا تھا میں غم کی دریا دلی سے لیکن
میں غم کی دریا دلی سے پاگل نہیں ہوا تھا
عجیب دکھ ہے جو دل کو اندر سے کھا رہا ہے
وہ مجھ سے مل کر خوشی سے پاگل نہیں ہوا تھا