شہباز رشید
قلم روٹھ جاتا ہے ،سیاہی رنگ بدلتی ہے اور خلوص متاثر ہوتا ہے جب قلب کے بدلے محض تحفظات تحریر کے نگہباں ہوتے ہیں ۔ارادے ٹوٹ جاتے ہیں جب انسان خواہشات کی دنیا کا مسافر بنتا ہے ۔غیرت اور حمیت مر جاتی ہے جب حبِ دنیا رگ وپے میں سرایت کر جاتی ہے ،پھر غزالی کا فلسفہ ،مولانا روم کی مثنوی ،عبدالقادر جیلانی کے واعظ ،صلاح الدین ایوبی کی اولولعزمی ،فکر اقبال وغیرہ سب محض لن ترانیاں اور فن کارائیاں رہ جاتی ہیں ۔کیا آج فکر اقبال کے ماہر موجود نہیں لیکن حیرت ہے کہ جس اقبال نے پوری عمر مغربی تہذیب وتمدن کے مفاسد بیان کرنے میں لگائے آج یہ حضرات ہیں کہ سراپا مغرب کے مقلد ۔یہ کیا ستم ظریفی ہے کہ روحانیت کے علمبردار آج مسجدوں اور خانقاہوں میں مقیم مال و دولت کے انبار اکھٹا کرنے میں پیش پیش ہیں ۔مزاحیہ پن ان کا خاصہ ہے سنجیدگی سے کوسوں دور ہیں ۔دین ،شریعت ،وعظ اور نصیحت اب بس ایک دل بہلانے کا مشغلہ لگ رہا ہے وگرنہ زندگی کا سارا بہاو مال ومتاع کی طرف ہے ۔آج بھلا کون ہے جو اس دین کے لئے راتوں کو آنسوں بہائے ،اسلام کے لئے تڑپ اٹھے ،عشق رسول میں بیتاب ہوجائے اور اس دین غریب کا عملی اور زندہ تعارف پیش کرے ۔مال کی محبت نے انسان کی ہڈیوں میں سے گودا تک نکال دیا ہے اب بس ہے کہ ذر ہے جوہر زندگی ،بقائے زندگی اور مقصودِ زندگی !
دنیا بس تفاخر بینکم اور تکاثر فی الاموال کے مقابلے میں مصروف ہے اور اپنی عاقبت سے مسلسل غافل بنتی جا رہی ہے ۔ریاکاری اور تکبر کی بیماری نے آج کے انسان کو اپنا غلام بنا لیا ہے جس کی وجہ سے وہ نہایت ہلکی سے مخلوق بن کر اپنی عظمت کا جنازہ نکال رہا ہے ۔ انسان ان اخلاقی بیماریوں کی وجہ سے گھٹیا درجے کا مخلوق بن کر مخبوط الحواس ہوچکا ہے ۔وہ انسان جو کبھی امن کے ترانے سناتا تھا آج وہی بدامنی پھیلا رہا ہے،جو کبھی بھائی چارے کی بات کرتا تھا آج وہی افتراق کی بات کرتا ہے ،جو کبھی خلوص کا داعی تھا وہی آج تعصب کی آگ میں جل رہا ہے ،جو کبھی سچائی پر وعظ بیان کرتا تھا آج وہی جھوٹ کا علمبردار ہے اور جو کبھی موت کی بات کرتا تھا آج وہی دنیا پرستی کا پیکربنا بیٹھا ہے اور جو کبھی انسانیت کی بات کرتا تھا آج وہی حیوان بنابیٹھا ہے ۔خواہشات کی ہلکی سی بجلی سے بیدار ہو کر آوارگی پر اتر آنے والا انسان آخرکار کیوں اپنے انجام سے بے پرواہ ہے ۔خواہشات کی آگ بجھانے کے لئے اس انسان نے اپنے آپ کے ساتھ ساتھ اپنے ماحول تک کو متاثر کیا ہے اور اب نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ انسان ماحولیاتی تباہی کی زد میں بری طرح پھنس چکا ہے ۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے زعم میں مبتلا یہ انسان آخر کب تک اپنے انجام کی حقیقت سے بے خبر رہے گا اور مسلسل غفلت کی دیواریں تعمیر کر کے خود کو محفوظ رکھنے کی ریہرسل کرے گا۔قرآن انسان کو اس کی اس غفلت اور بےحسی کے تناظر میں خبردار کرتا ہے کہ اپنے انجام کی فکر کر جس کا مقابلہ کرنے سکت تجھ میں نہیں ہے ۔اقترب للناس حسابھم وھم فی غفلۃ معرضون :قریب آگیا ہے لوگوں کے لئے ان کے حساب کا وقت لیکن وہ غفلت میں پڑے اعراض کئے جارہے ہیں ۔
قرآن کے اس اعلان کو سن کر بھی ان سنی کی جارہی ہے ۔حیوانوں کے مشغلے انسانوں کے محبوب ترین مقاصد بنتے جارہے ہیں ۔سب کچھ بدلتا جارہا ہے ۔روایات ،اخلاقیات،تعلیمات،معیارات اور نظریات سب کچھ بدل رہا ہے ۔
جاہ و حشمت ،شان وشوکت ،چلت پھرت،ٹھاٹھ باٹھ ،نام ونموداور رعب داب کو آج کے دور میں شاید کامیابی سے تعبیر کیا جاتا ہے حالانکہ مصنوعی کامیابی کے یہ کمزور مظاہر ناکامی کی علامات ہیں ۔لیکن مصنوعی کامیابی کے آئین میں ان کی ایک اہمیت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاتا ،اسی لئے کبھی ایلن مسک کبھی بل گیٹس کبھی شاہ رخ خان کبھی اسکندر اور کبھی بش ،پٹن اور دوسرے سفاک حکمرانوں کا نام لے لےکر کامیابی کے موضوع پر زبان ولب اورقلم ودوات کی ورزش کرائی جاتی ہے ۔یہ آخر کیا ماجرا ہے کہ جس کو جو سوجھے اسےکامیابی قرار دیتا ہے ،جس کو جو محسوس ہو اسے ہیرو بنا دیتا ہے، نفس جس سے تسکین پاتا ہے اسے اعزاز جانتاہے اور پھر کبھی اپنے دین و ایمان کے سودا کرنے کو بھی فعلِ تکریم سمجھتا ہے! اتنا سستا سودا اور اتنے کم داموں میں اس روئے زمین پر کامیابی کا فریرا خریدا اور بیچا جارہا ہے کسی المیہ سے کم نہیں ! کیا یہ حماقت نہیں کہ ایک ظالم کو ایک فاجر کو ایک فاسق کو کامیابی کے ہار پہنائے جاتے ہیں حالانکہ جس کےظلم اور فسق وفجور نے بے گناہوں اور معصوموں سے جینے کا حق چھینا ہوتا ہے،جو عوام کا خون چوس چوس کر موٹا ہوا ہوتا ہے اور جو خباثت کے سارے جراثیم اپنے قلب وضمیر میں داخل کرکے گندی نالی کے کیڑؤں کی مانند ہوجاتے ہیں ۔انہی جیسے اشخاص کا بوجھ زمین برداشت کرنے کا تحمل نہ رکھنے کی وجہ سے خدا سے دست سوال ہوتی ہے کہ حکم دیں میں ان خبیثوں کو اپنے پیٹ میں ہضم کرلوں لیکن مہلت کا ایک قانون ہے جو اللہ نے جاری کیا ہوا ہے وہ آڑے آتا ہے ۔کامیابی کی ہر کڑی کو ان ہوس کےبھوکوں سے وابسطہ کرنا کوتاہ بینی اور تنگ فہمی کا شاخسانہ ہے ۔کیا دورِ جدید میں کبھی کسی نے یہ سوچنے اور جاننے کی زحمت اٹھائی کہ کامیابی کے شرائط کیا ہونے چاہئے یا کامیابی کن امور کا نام ہے یا یہ کہ کامیابی کے لوازمات کیا کیا ہیں؟ میرے خیال سے سوچنا تو دور کی بات ہے ایسا محسوس بھی نہیں کیا جاتا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج کی دنیا میں کامیابی کے نام پر صرف تجارت ہوتی ہے اس لفظ کو بیچا اور خریدا جاتا ہے جس طرح سے سونےچاندی کی خریدو فروخت ہوتی ہے۔کامیابی کا ٹائٹل حاصل کرنا بھی نافرمانوں اور منافقوں کا مرہون منت ہے ۔انسانی لذت کا سامان فراہم کرنے والے ایک ایک ادا پر کروڑوں ہضم کرکے ستاروں کے ہم نام ہوجاتے ہیں اور جو بیچارے رات دن محنت کرتے ہیں وہ خاک کے ہم نام ہوکر ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں ۔قاتل کے قتل کو جب سراہا جائے تب انصاف کے کون سے الفٖاظ ہیں جو انسان کے اعتماد کو بحال کر سکیں ،اس کے وقار کو برقرار رکھ سکیں اور اس کے تشخص کو تحفظ فراہم کر سکیں ،کیونکہ انسانیت تو ہے ہی نام عدل و انصاف کا ۔اب جب عدل و انصاف ہی مکروہ فعل جانا جائے تب اس کا بدل خوف و دہشت اور قتل و غارت میں ہی تلاش کیا جاتا ہے ۔