اب تو کچھ کیجئے

 
ممتازمیر
 
  دلت وائس ایک ۱۵ روزہ انگلش جریدہ تھا جو بنگلور سے مسٹر وی ٹی راج شیکھر نکال رہے تھے۔اس جریدے نے۱۹۸۱ میں جنم لیا اور ۲۰۱۱ میں مر گیا ۔مسٹر وی ٹی راج شیکھر دلت تھے اور انھوں نے کبھی اپنے آپ کو ہندو نہیں سمجھا ۔انھوں نے درجنوں بار اپنے رسالے میں لکھا اور با قاعدہ اعداد وشمار کے ساتھ لکھا کہ اس ملک میں اصل ہندو صرف ۱۵ فی صد ہیں اور باقی سب نان ہندو ہیں۔وہ دلتوں ،پچھڑے طبقات اور مسلمانوں کو اپنی تحریر کے ذریعے جھنجوڑنے کا کام کرتے تھے ۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس ملک کے مستضعفین کو سوائے مسلمانوں کے کوئی اور برہمنوں کے شکنجے سے نجات نہیں دلا سکتا۔مگر وہ مسلمانوں میں سوائے جماعت اسلامی کے کسی کو پسند نہ کرتے تھے۔آج دیکھیں ایک ایک کرکے ہمارا ہر ستون گر رہا ہے ۔یہاں تک کہ جماعت اسلامی کے تعلق سے بھی یہ گمان ہو رہا ہے کہ وہ بھی اسی راہ پر گامزن ہے ۔نا معلوم کس دن خبر آجائے کہ موہن بھاگوت جی نے جماعت کے ہیڈکوارٹر کو بھی اپنی تشریف سے سرفراز فرمایا ہے ۔اور امیر جماعت بھی ان کی تعریف میں رطب اللسان ہو گئے ہیں۔ہم جیسے دل جلوں کو جلانے کے لئے وہاں سے بھی بھاگوت اور اکابرین جماعت کی ’’کھاتی پیتی‘‘ تصویریں جاری ہوں ۔خیر،مسٹر شیکھر کو چونکہ جماعت سے انسیت تھی اسلئے شکایت بھی جماعت ہی سے تھی ۔ہر دوسرے تیسرے اشو میںجماعت سے شکایت کا پٹارہ کھول بیٹھتے ۔بلا شبہ جماعت مسلمانوں میںسب سے اہم اور منضبط تنظیم رہی ہے ۔مگر وطن عزیز میں مسلمانوں میں سب سے زیادہ گہرائی ان جماعتوں یا تنظیموں کو حاصل رہی ہے جو پیری مریدی کا کاروبار کرتی ہیں چاہے وہ بریلوی ہوں یا دیوبندی،اور تقسیم وطن کے وقت یہ تمام تنظیمیںامبیڈکر کو پیر بنانے کے بجائے نہرو کو پیر بنا چکی تھیں ،اور کیوں نہ بناتیں!نہرو اعلیٰ ذات کا تھا ۔ہندؤں کا سید ۔اور امبیڈکر مہارتھا۔ہماری اعلیٰ ذاتیں (یہ لکھتے ہوئے دل خون ہوتا ہے)اس کے ساتھ کیسے چلتیں۔ہماری لیڈر شپ مسلمانوں میں برہمن تھی۔مگر نہرو اور اس کے رفقا نے ہماری اعلیٰ ذاتوں کی ذرہ برابر پرواہ نہ کی ۔وہ اپنے ایجنڈے پر بلا خوف و خطر چلتے رہے ۔اور اسی ایجنڈے کے تحت وہ ۱۹۲۵ میں ایک دہشت گرد تنظیم کو وجود میں لائے ۔وہ اسے اپنا اور مسلمانوں کا خون پلا کر پالتے پوستے رہے۔اس کی ہر طرح سے پرورش کی ،حفاظت کی ۔نام کے لئے اس پر پابندی بھی عائد کی اور اس کے خلاف جمع ثبوتوں کو دریا برد بھی کرتے رہے ۔اور یہ سب کچھ روز روشن میں ہمارے بزرگوں کی آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا ۔مولانا مودودی کو ایک چھوٹے سے واقعے نے آزادی سے بہت پہلے یہ بتادیا تھا کہ مستقبل کے ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے مگر ہمارے امام الہند اور شیخ الاسلام کہلانے والے بزرگوں کو سینکڑوں بڑے بڑے واقعات دیکھنے کے بعد بھی یہ سمجھ نہ پڑی کہ برہمنوں کی گود کے سوا بھی کوئی اور جائے پناہ ہو سکتی ہے۔برہمنوں کے سامنے سرنڈر کرنے کے سوا بھی اس ملک میں بقا کی کوئی دوسری حکمت عملی ہو سکتی ہے ۔ان پر تھوڑے سے تصرف کے ساتھ راحت مرحوم کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎یہ لوگ پاؤں نہیں ذہن سے اپاہج ہیں ؍ادھر چلیں گے جدھر برہمن چلاتا ہے ۔ہمارے یہ بزرگ ایسا لگتا ہے کہ بصیرت کیا بصارت سے بھی محروم تھے۔نہ انھیں طاقت کے بل پر بابری مسجد میں مورتیوں کا رکھا جانا نظر آیا نہ گاندھی کے قتل پر آر ایس ایس کا صاف بچا لیا جانا ۔جو راشٹر پتا کومسلمانوں کی معمولی سی حمایت پر قتل کرکے صاف بچائے جا سکتے ہوں وہ بھی نئی نویلی آزادی کے چند ماہ بعد تو ان کے اور مسلمانوں کے مستقبل کا کوئی اشارہ ہماری اس اندھی بہری قیادت کو نہ مل سکا ۔وہ مرگئی مگر مستقبل کا کوئی واضح لائحہء عمل قوم کو نہ دے سکی۔
    چلئے ماضی پہ مٹی ڈالتے ہیں۔ماضی سے سبق حاصل کیجئے اور فرقہ پرستوں سے مقابلہ کرنے کے لئے کمر کسئے۔اب تو مسلمان ہر پارٹی کو آزما کر دیکھ چکے ہیں ۔ یہ سبق حاصل کر چکے ہیں کہ سیکولر پارٹیاں ساری کی ساری نام نہاد سیکولر پارٹیاں ہیں۔ان میں سے کوئی بھی مسلمانوں کی مدد کرنے والا نہیں۔بس یہ مسلمانوں سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے ہی مسلمانوں کے نام کی مالا جپتی ہیں۔اور غیر مسلمانوں کی مدد کریں کیوں جب کہ مسلمانوں کے اپنے ہی مسلمانوں کے نہیں۔
   ان حالات میں مسلمانوں کو اپنے لیڈروںکی طرف دیکھنے کے بجائے اپنی تنظیموں اور عوام کے ذریعے میدان عمل میں اترنا ہوگا۔اب دنیا پرنٹ میڈیا سے آگے نکل کر الکٹرانک اور اس سے بھی آگے بڑھ کر سوشل میڈیا کے دور میں داخل ہو چکی ہے ۔ان حالات میں سنگھ پریوار کے خلاف روز ایک نئی کتاب لکھ کر خود اس کے ہی لوگ پھیلا رہے ہیں۔ہمار اکام یہ ہے کہ ان کتابوں کو ہندی اور مختلف علاقائی زبانوں میںبڑے پیمانے پر چھپواکر مارکیٹ میں لائیں اور خوب پھیلائیں۔آر ایس ایس کے سیاہ کرتوت ۔یہ وجے شنکر ریڈی کی ان دنوں کی آپ بیتی ہے جب وہ آر ایس ایس میں تھے۔انھوں نے ثبوتوں کے ساتھ آر ایس ایس کی پول کھولی ہے ۔ یہ کتاب ۲۰۱۹ میں تلگو اور انگلش میں شائع ہوئی ۔اسی سال ہندی میں بھی طبع ہوئی۔اور اردو میں ظہیر آباد تلنگانہ کے سید مقصود نے ترجمہ کرکے جنوری ۲۰۲۰ میں سمکشا پبلکیشن حیدرآباد سے شائع کیا ۔ہماری تنظیموں کو چاہئے کہ اس کتابچے کا (صرف ۴۵ صفحات کا ہے )نہ صرف ہندی ورژن بلکہ تمام ممکن علاقائی زبانوں ترجمہ کرواکر پھیلایا جائے۔اس سے لوگوں کو پتہ چلے گا کہ آر ایس ایس کسی کی دوست نہیں ۔اس کا مقصد وجودصرف برہمن مفادات کے تحفظ کے لئے ہے ۔ابھی ابھی ہفتے دو ہفتے پہلے یشونت شندے نامی ایک آر ایس ایس ورکر کے اس حلف نامے کا بھی میڈیا میں چرچا رہا ہے جو اس نے ناندیڑ بلاسٹ کے سلسلے میں کورٹ میں داخل کیا ہے مگر سنگھی وکیل بھی اس حلف نامے کی مخالفت میں ڈٹے ہوئے ہیں۔اس حلف نامے کو بھی ملک کی ہر زبان میں ترجمہ کرواکر پھیلایا جانا چاہئے۔یہ بھی ۳۱ صفحات کا کتابچہ ہے۔ایک اور کتاب ہے ’’کانگریس ،آر ایس ایس کی ماں‘‘پروفیسر ولاس کھرات کی یہ کتاب ۲۰۱۸ کی ہے۔جسے سید مقصود صاحب نے فروری ۲۰۱۹ میں ترجمہ کیا اور بابا صاحب رسرچ سنٹر نے شائع کیا ہے۔ہماری تمام ہی جماعتیں چونکہ کانگریس پریم میں مبتلا ہیں سوائے مولانا خلیل الرحمٰٰن سجاد نعمانی کے اسلئے ہم انہی سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اسے پھیلانے کی ذمے داری اٹھائیں۔کتاب ۱۵۰ صفحات کی ہے۔ابھی ابھی جولائی۲۰۲۲ کرناٹک کے ایک دلت لکھاریDevanur Mahadeva کی ایک کتاب RSS:Aala,Agala یعنی آر ایس ایس :طول و عرض۔شائع ہوئی ہے۔اس کتاب نے کرناٹک میں فروخت کا ریکارڈ قائم کیاہےاور اس کی وجہ سے کرنا ٹک میں ہنگامہ برپا ہے۔حزب مخالف کے لیڈر سدا رمیا کا کہنا ہے کہ مصنف نے ٹھوس ثبوت اور مناسب ڈاکیومنٹس کے ساتھ اپنی بات کہی ہے ۔ابھی ابھی دلی دنگوں کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ بھی آئی ہے ۔ ہم اس سے پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہیںکہ ہر واقعے کے بعد اپنے خرچ پر ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی جائے اور اس کی رپورٹ کو شائع کراکر پھیلایا جائے ۔ہم جو پیسہ نفل حج و عمرہ میں خرچ کرتے ہیں قربانی کے ’’شو‘‘ میں برباد کرتے ہیںاور جس کا کوئی فائدہ بھی ہمیں نہیں مل رہا ہے وہ پیسہ اس قسم کے کاموں میں لگانے کی قوم کو عادت ڈالی جائے ۔ہر اللہ والا اپنے متبعین کو اس کے لئے مجبور کرے ۔
 کیا کیا لکھیں ،کس کس کتاب کا ذکر کریں۔ابھی بھی درجنوں کتابوں کا ذکر باقی ہے ۔آج بھی اگر ہم اس قسم کے کاموں پر دھیان دیں تو حالات بدل سکتے ہیں۔آج ہم جس پوزیشن میں ہیں اس پر اپنے دشمن کو دھکیل سکتے ہیںشرط یہ ہے کہ من حیث القوم ہم اس کام کے پیچھے پڑ جائیں۔سرکار اور ہمارے اپنے لیڈر اسے برداشت نہ کریں گے ۔مگر کام تو کرنا پڑے گا۔
      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7697376137
اپنا تبصرہ لکھیں