تیرے چھونے سے کہاں برف پگھل جا ئے گی

تیرے چھونے سے کہاں برف پگھل جا ئے گی

کلام : شعاع نور

انتخاب: ڈاکٹر شہلا گوندل

عمر رفتہ کے حسیں دور کی معصوم کلی

تیری خواہش تھی کوئی نظم لکھوں تجھ پر بھی

جس کو پڑھ کر تری آنکھوں میں ستارےاتریں

وصل کے رنگ میں مبہم سے اشارے اتریں

عمر رفتہ کے حسیں دور کی معصوم کلی

تو بھی تو ہجر کے مفہوم کہاں

بھولی تھی

وہ قیامت جو کسی دل پہ گزر جاتی ہے

وہ قیامت ہی تو کندن کا سبب ہوتی ہے

اس جدائی نے تجھے حسن ازل بخشا ہے

ایک آواز تعاقب میں چلی آئی ہے
جو کہا کرتی تھی لکھتے ہیں

الف کو کیسے

ب کے نقطے کو یہاں ایسے لگانا ہوگا
میم سے نام بھلا کس کا شروع ہوتا ہے

ایک میں ایک جمع ہوں گے تو دو بنتا ہے

جیم سے لفظ نیا آج بنالیتے ہیں

ایک جگنو کو یہاں آج بٹھا لیتے ہیں
جیم سے لفظ جدائی بھی ہوا کرتا ہے

ہجر کے لفظ کہاں ہم نے بھلا سیکھے تھے

اب کوئی لفظ ہی یکجا نہیں ہوتا
ہم سے

کوئی تکمیل کی صورت ہی نہیں بنتی ہے

وہ جو کردار کی تکمیل میں
کوشاں تھے سبھی

وہ جو محسن تھے مری جان تہہ خاک ہوئے

اب کہوں کیسے کہ وہ دیدۂ نمناک ہوئے

وہ جو خوش رنگ لباسوں میں
حسیں چہرے تھے

جن کے چہرے پہ نگاہیں یہ جمی رہتی تھیں

وہ جو سکھیاں تھیں ترے ساتھ وفاؤں جیسی

کتنی معصوم حسیں شوخ اداؤں جیسی

تو انھیں ڈھونڈھنے
نکلی ہے مگر کیا جانے

اے مری دوست وہ کردار سبھی خواب ہوئے

چھو کے جس برف کو تو پانی بنا دیتی تھی

لاکھ چھو لے گی مگر برف نہیں پگھلے گی

زندہ مردہ کا وہی کھیل جو کھیلا تھا کبھی
سچ تو یہ ہے کہ

وہی کھیل کہاں کھیل رہا

تیری آنکھوں کی قسم اب نہ کوئی میل رہا

عمر رفتہ کا وہ منظر جو مقید ہوتا

پھر کوئی وصل کسی ہجر میں کیسے روتا

وہ جو تتلی کے پکڑنے میں ترے ساتھی تھے

زخم رستے تھے مگر کھیل میں شامل تھے سبھی

بھوک ہوتی بھی تو ہونٹوں سے نہ کہتے تھے کبھی

آخری بار بچھڑنے سے ذراسا پہلے

نرم رخسار پہ گرتے ہوئے آنسو تیرے

میری سطروں میں اتر آئے ہیں جنگو کی طرح

چلتے چلتے وہ ترا مڑ کے وہیں رک جانا

ہجر کے ڈر سے وہ پردے میں ترا چھپ جانا

عمر رفتہ کے وہ کردار تو اب برف ہوئے

اور اک تو جنھیں چھونے کی تمنائی ہے

تیرے چھونے سے وہ پانی تو نہیں ہوسکتے

بند کمروں میں الف ب کی جو آوازیں تھیں

سسکیاں بن کے اتر آئی ہیں اب آنکھوں میں

وقت کی آنکھ جو سوتے میں کبھی لگ جاتی

تو میں چپکے سے وہی وصل چرا کر لاتی

وقت ساکن جو کبھی ہوتا تو تیری خاطر

تیرا بستہ تری ہر چیز اٹھا کر لاتی
تو جسے روز لکھا کرتی تھی اس تختی کو

سچ تو یہ کہ تغیر نے مٹا ڈالا ہے

اور وہ بوڑھا شجر یاد تو ہوگا
شہلا

جس کے سائے میں پڑھا کرتے تھے ہم سب مل کر
ہجر طوفان نے اس کو بھی گرا ڈالا ہے

بھول جانے کے لئے یاد نہیں ہوتی ہے

یاد مرجائے بھلا یوں بھی کبھی ہوتا ہے

آؤ پھر ایسا کریں یاد اٹھالاتے ہیں

برف پانی کے اسی کھیل کو دہراتے ہیں

تم ذرا یاد کو چھو کر اسے پانی کردو

یاد پگھلے گی تو آنکھوں میں نمی آئے گی
شدت درد میں تھوڑی سی کمی آئے گی

تم میں ہمت ہے تو پھر یاد کو چھو کر دیکھو

ورنہ پھر برف کی صورت ہی اسے رہنے دو

اپنا تبصرہ لکھیں